بحیرہ روم میں تارکین وطن کی ایک کشتی ڈوبنے کے نتیجے میں کم از کم 41 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔ یہ مہاجرین بہتر مستقبل کے لیے اٹلی پہنچنے کی کوشش میں تھے۔
اطالوی نیوز ایجنسی انسا کے مطابق متاثرہ کشتی تیونس کے ساحلی قصبے صفاقس سے روانہ ہوئی تھی اور اطالوی جزیرے لامپے ڈوسا کے قریب ایک بڑی سمندری لہر سے ٹکرانے کے بعد ڈوب گئی۔
بچ جانے والے عینی شاہدین کے مطابق کشتی پر کل 45 افراد سوار تھے، جن میں تین بچے بھی شامل ہیں۔ اٹلی کے سرکاری ٹیلی وژن آر اے آئی کی رپورٹ کے مطابق زندہ بچ جانے والے چار افراد کو سسلی کے قریب سمندر سے بچایا گیا اور پھر انہیں جزیرے لامپے ڈوسا پہنچا دیا گیا۔ بتایا گیا ہے. کہ جائے حادثہ کے قریب ایک کارگو جہاز گزر رہا تھا، جہاں موجود افراد نے. ایک خاتون اور تین مردوں کو بچایا۔
لامپے ڈوسا نامی اطالوی جزیرہ تیونس کے صفاقس نامی قصبے سے صرف 190 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
صرف پندرہ جیکٹیں
انسا نیوز ایجنسی کے. مطابق ابھی تک کسی بھی شخص کی لاش نہیں ملی ہے۔ بچ جانے والے افراد کے مطابق متاثرہ کشتی پر زندگی بچانے والی صرف پندرہ جیکٹیں موجود تھیں۔
اطالوی وزارت داخلہ کے مطابق اس برس اب تک اٹلی میں 93 ہزار تارکین وطن پہنچ چکے ہیں۔ یہ تعداد گزشتہ برس اتنے عرصے کے دوران 45 ہزار تھی۔
حالیہ کچھ عرصے کے دوران تارکین وطن کی متعدد کشتیاں حادثات کا شکار ہو چکی ہیں اور اس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد پانی میں ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم ایسے جان لیوا حادثات کے باوجود غیر قانونی طریقوں سے یورپ کی طرف نقل مکانی کرنے والے مہاجرین کی تعداد میں کمی واقع نہیں ہو رہی۔
دو ہفتے قبل تیونس کے کوسٹ گارڈز نے کہا تھا. کہ رواں برس کے آغاز سے اب تک وہ نو سو سے زائد تارکین وطن کی لاشیں پانی سے نکال چکے ہیں۔ غیر قانونی تارکین وطن اور سیاسی پناہ کی تلاش میں یورپ جانے والوں کے لیے. یہ ایک مرکزی راستہ ہے۔ اسی طرح لیبیا سے یورپ پہنچنے والے تارکین وطن کی کشتیوں کو بھی ایسے حادثات کا سامنا رہتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق تارکین وطن کے لیے وسطی بحیرہ روم دنیا کا سب سے مہلک راستہ بن چکا ہے۔ اس راستے پر سن. 2014 سے اب تک 20 ہزار سے زائد تارکین وطن ہلاک ہو چکے ہیں۔