کراچی پولیس کے مطابق کورنگی کے اللہ والا ٹاؤن میں پیر کی رات ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر فائرنگ سے نجی یونیورسٹی کا ایک 22 سالہ طالب علم چل بسا، جس کی شناخت محمد لاریب کے نام سے ہوئی۔
پولیس کے مطابق مقتول کے پاس سے ان کا موبائل فون نہیں ملا، جس کے حوالے سے شبہ ہے کہ اسے ڈاکو اپنے ساتھ لے گئے جبکہ واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
مقتول کے اہل خانہ نے لاش کا پوسٹ مارٹم کروانے سے انکار کر دیا ہے. جبکہ ان کے بھائی شاہ زیب کے مطابق تدفین کے بعد مقدمہ درج کروایا جائے گا۔
مقتول کے والد محمد حسین نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ ان کا بیٹا گھر سے جم جانے کے لیے نکلا تھا کہ یہ واقعہ پیش آیا۔
طالب علم
والد کے مطابق مقتول لاریب بیچلرز آف بزنس ایڈمنسٹریشن (بی بی اے) کا طالب علم تھا. اور بیسک اکاؤنٹنگ کی کتاب بھی لکھ رہا تھا، جس کی رونمائی چھ مارچ کو ہونا تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ملزمان نے مقتول سے موبائل فون چھیننے کی کوشش کی، جس میں لاریب کی کتاب کا ڈیٹا تھا، جس کی وجہ سے. انہوں نے مزاحمت کی۔
مقتول کے والد نے مزید بتایا .کہ ان کے بیٹے کی منگنی ہوچکی تھی اور اگلے سال شادی تھی۔
مقتول کے پڑوسی فیصل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ محمد لاریب چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔
فیصل کے مطابق: ’لاریب ایک ہونہار طالب علم اور خوش مزاج لڑکا تھا۔ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہونے کے باعث ذمہ دار بھی تھا۔ اس وقت لاریب کی موت س.ے علاقہ سوگ میں ڈوب گیا ہے. جبکہ اہل خانہ غم سے نڈھال ہیں۔‘
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے طالب علم لاریب کے قتل پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس سے واقعے کی فوری رپورٹ طلب کرتے ہوئے بیان میں کہا کہ ’ایسے واقعات کی ہرگز گنجائش نہیں۔ طالب علم ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں۔‘
وزیراعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ’چھیناجھپٹی کی بڑھتی ہوئی وارداتیں تشویش کا باعث ہیں۔‘
سٹیزن پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کراچی میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارے گئے افراد کی تعداد 34 ہو گئی ہے۔