کرپٹو کوئین: کہانی اس خاتون کی جس نے کرپٹو کرنسی ’ون کوائن‘ کے ذریعے اربوں لوٹے اور غائب ہو گئی

اربوں ڈالر کے فراڈ کے الزامات کے تحت ڈاکٹر روجا اگناتووا، جنھیں کرپٹو کوئین کی عرفیت سے جانا جاتا ہے، کا نام یورپ کے سب سے زیادہ مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

یورپ کی قانون نافذ کرنے والی ایجنسی (یورو پول) نے کہا ہے کہ 41 برس کی روجا اگناتووا کی گرفتاری میں مدد فراہم کرنے والے کو پانچ ہزار یورو کا انعام دیا جائے گا۔

روجا اگناتووا کرپٹو کرنسی ’ون کوائن‘ کی بانی ہیں اور ان پر ہزاروں سرمایہ کاروں کے ساتھ فراڈ کا الزام ہے۔

یورو پول نے اس حوالے سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا ہے کہ روجا اگناتووا نے دنیا بھر سے متعدد سرمایہ کاروں کو ون کوائن ڈیجیٹل کرنسی میں سرمایہ کاری پر راغب کیا اس حقیقت سے قطع نظر کہ ون کوائن درحقیقت بیکار کرنسی تھی۔

ڈاکٹر روجا اگناتووا کون ہیں، ون کوائن کی حقیقت کیا تھی اور پھر وہ منظر عام سے کیسے اور کب غائب ہوئیں اس حوالے سے بی بی سی کی یہ تفصیلی رپورٹ پڑھیے جو پہلی مرتبہ دو دسمبر 2019 کو شائع ہوئی تھی۔

لائن

روجا اگناتووا خود کو کرپٹو کرنسی کی رانی یا ’کرپٹو کوئین‘ کہلوانا پسند کرتی تھیں۔ وہ لوگوں کو بتاتی تھیں کہ انھوں نے بِٹ کوائن کے مقابلے میں ایک نئی کرپٹو کرنسی ایجاد کر لی ہے اور لوگوں کو چاہیے کہ وہ اربوں ڈالر کا سرمایہ اس کرنسی میں لگا دیں۔ اور پھر دو سال پہلے، روجا اچانک غائب ہو گئیں۔ جیمی بارٹلٹ گذشتہ کئی ماہ سے یہ کھوج لگانے کی کوشش میں رہے ہیں کہ کرپٹو کوئین آخر گئیں کہاں؟

یہ جون 2016 کی بات ہے جب ڈاکٹر روجا اگناتووا اپنے ہزاروں مداحوں کے سامنے لندن کے مشہور سٹیڈیم ’ویمبلی ایرینا‘ کے سٹیج پر نمودار ہوئیں۔ حسب معمول وہ ایک انتہائی مہنگے گاؤن میں ملبوس تھیں، ہیروں سے مزین لمبی لمبی بالیاں کانوں میں اور شوخ سرخ رنگ کی لِپ سٹک لگائے ہوئے۔

تالیوں کی گونج میں انھوں نے حاضرین کو بتایا کہ وہ دن دور نہیں جب ’ون کوائن‘ دنیا کی سب سے بڑی کرپٹو کرنسی بن جائے گی اور دنیا میں کسی بھی مقام سے لوگ مالی ادائیگیوں کے لیے اس کرنسی کو استعمال کر سکیں گے۔

ڈاکٹر روجا
،تصویر کا کیپشنڈاکٹر روجا اپنے ہزاروں مداحوں کے سامنے لندن کے مشہور سٹیڈیم ‘ویمبلی ایرینا’ میں ون کوائن کے بارے میں بتاتے ہوئے

یاد رہے کہ دنیا کی پہلی کرپٹو کرنسی ’بِٹ کوائن‘ ہے اور آج بھی یہ سب سے بڑی اور مشہور ڈیجیٹل کرنسی ہے۔

بِٹ کوائن کی کامیابی کے بعد کرپٹو کرنسی کے خیال کو مزید تقویت ملی اور دنیا بھر میں بے شمار لوگوں نے دولت بنانے کے اس نئے طریقے میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔

ویمبلی سٹیڈیم کے سٹیج پر کھڑی ڈاکٹر روجا کا کہنا تھا کہ ون کوائن اصل میں ’بِٹ کوائن کا قاتل‘ ثابت ہو گا اور ’دو سال بعد کوئی بِٹ کوائن کا نام بھی نہیں لے گا۔‘

ڈاکٹر روجا کی اس تقریر سے پہلے ہی لوگوں نے ون کوائن میں سرمایہ کاری شروع کر دی تھی اور کئی لوگ اپنی بچت اس میں لگا چکے تھے، اس امید پر کہ وہ بھی اس نئے انقلاب کا حصہ بن جائیں گے۔

بی بی سی کو ملنے والی کچھ خفیہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سنہ 2016 کے پہلے چھ ماہ میں صرف برطانیہ میں لوگ ون کوائن میں تقریباً 30 ملین یورو کی سرمایہ کاری کر چکے تھے، جن میں سے دو ملین یورو صرف ایک ہفتے کے دوران لگائے گئے تھے۔

اگست 2014 سے مارچ 2017 کے درمیانی عرصے میں درجنوں دیگر ممالک میں بھی لوگوں نے چار ارب یورو کے بٹ کوائن خریدے۔ ان ممالک میں پاکستان سے لے کر برازیل، ہانگ کانگ سے لے کر ناروے اور کینیڈا سے لے کر یمن تک کے ممالک شامل تھے، یہاں تک کے فلسطین بھی۔

Ruja Ignatova

لیکن ان سرمایہ کاروں کو ایک بڑی اہم بات معلوم نہیں تھی۔

اس بات کی وضاحت کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ کرپٹو کرنسی کام کیسے کرتی ہے۔

کرپٹو کرنسی کیا ہوتی ہے؟

اس چیز کو سمجھنا خاصا مشکل ہے۔ آپ انٹرنیٹ پر جائیں تو آپ کو کرپٹو کرنسی کے بارے میں سینکڑوں مختلف آرا نظر آئیں گی جن میں کچھ کو پڑھ کر آپ حیران رہ جاتے ہیں اور کچھ ایسی ہیں جو صاف دکھائی دیتا ہے کہ کسی ماہر کی لکھی ہوئی نہیں ہیں۔

رائے میں اختلاف اپنی جگہ، لیکن ایک بات آپ کو فوراً سمجھ آ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی کرنسی کی قیمت یا قدر اتنی ہی ہوتی ہے جتنی لوگ سمجھتے ہیں۔ چاہے یہ بینک آف انگلینڈ کے جاری کردہ کرنسی نوٹ اور سِکّے ہوں، قیمتی پتھر ہوں یا اس قسم کی کوئی اور چیز۔ کوئی بھی کرنسی اسی وقت کام کرتی ہے جب ہر کوئی اسے تسلیم کرتا ہے۔

کافی عرصے سے لوگ اس کوشش میں رہے ہیں کہ وہ کوئی ایسی ڈیجیٹل کرنسی بنائیں جو ملکی سرحدوں کی محتاج نہ ہو اور اس کا انحصار کسی خاص ملک کی کرنسی پر نہ ہو۔

لیکن ان لوگوں کو ہمیشہ ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا کیونکہ کوئی بھی ان پر یقین نہیں کرتا تھا۔ لوگوں کو ہمیشہ اس بات کی ضرورت رہتی تھی کہ کوئی ایسا ادارہ یا شخص ہونا چاہیے جو اس کرنسی کی سپلائی کو اوپر نیچے کر سکے اور دوسرا یہ کہ ڈجیٹل کرنسی کی نقل بنانا بھی بہت آسان ہوتا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ بِٹ کوائن کے آنے پر بہت سے لوگ خوش ہوئے اور انھیں یقین ہونے لگا کہ اس میں کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہیں کرنے پڑے گا۔

بٹ کوائن

بِٹ کوائن کا انحصار ایک خاص قسم کے ڈیٹا بیس پر ہے جسے بلاک چین کہا جاتا ہے۔ بلاک چین ایک قسم کی بہت بڑی کتاب ہے اور اگر آپ بِٹ کوائن خریدتے ہیں تو اس کتاب کا ایک نسخہ یا کاپی آپ کو بھی مل جاتی ہے۔ مثلاً میری طرف سے جب بھی ایک بِٹ کوائن کسی دوسرے شخص کو بھیجا جاتا ہے، یہ چیز اس کتاب میں نوٹ ہو جاتی ہے جس کی ایک کاپی بِٹ کوائن کے تمام صارفین کے پاس موجود ہوتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو کوئی حکومت، کوئی بینک اور نہ ہی وہ شخص جو اس بِٹ کوائن کو ایجاد کرتا ہے، اس سکے کو تبدیل کر سکتا۔ اس ساری چیز کے پیچھے ریاضی کے اصول کارفرما ہیں، لیکن نہ تو بِٹ کوائن کی نقل بنائی جا سکتی ہے، نہ ہی بِٹ کوائن کی کتاب کو ہیک کیا جا سکتا ہے اور کسی بِٹ کوائن کو دو مرتبہ خرچ بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔

میں نے یہ ساری بات اپنے خاندان میں اس فرد کو بھی سمجھائی جو ٹیکنالوجی سے خوفزدہ ہو جاتا ہے، یعنی میری والدہ۔ ان کا جواب تھا کہ بیٹا کچھ سمجھ نہیں آئی، پھر سے بتاؤ۔

اس لیے اگر آپ کو بھی سمجھ نہیں آئی تو فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔ اس ساری بات میں اصل نکتہ یہ ہے کہ بلیک چین ڈیٹا بیس ہی دراصل وہ چیز ہے جس کی بنیاد پر بِٹ کوائن جیسی کوئی بھی ڈجیٹل کرنسی چلتی ہے۔ ڈجیٹل کرنسی کے چاہنے والوں کے لیے یہ کرنسی کی جدید ترین انقلابی قسم ہے، جس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ یہ بینکوں اور ملکی کرنسیوں کو کنارے لگا دے اور موبائل فون رکھنے والے ہر شخص کو آن لائن بینکنگ کی سہولت فراہم کر دے۔

اور اگر آپ کسی ڈجیٹل کرنسی کے شروع شروع کے خریداروں میں شامل ہو جاتے ہیں تو آپ کی قسمت بدل سکتی ہے۔

ڈاکٹر روجا کا کمال یہ ہے کہ انھیں یہ تمام بات سمجھ آ گئی اور انھوں نے اس خیال کو دھڑا دھڑ لوگوں میں فروخت کرنا شروع کر دیا۔

لیکن اس میں کچھ گڑ بڑ ضرور تھی۔

ڈاکٹر روجا کی لندن والی بڑی تقریب کے چار ماہ بعد اکتوبر 2016 کے اوائل میں ملازمتیں دلوانے والی ایک کمپنی نے بلاک چین کے ماہر یورن پیئرک کو بلایا اور انھیں ایک بڑی دلچسپ ملازمت کی پیشکش کی۔

انھیں بتایا گیا کہ بلغاریہ میں کرپٹو کرنسی کی ایک نئی کمپنی کو چیف ٹیکنیکل آفیسر درکار ہے اور اس کے لیے دو لاکھ 50 ہزار پاؤنڈ سالانہ کی پرکشش تنخواہ کے علاوہ گھر اور گاڑی بھی دی جائے گی۔

اس دن کو یاد کرتے ہوئے یورن پیئرک کہتے ہیں کہ ’میں سوچ رہا تھا کہ کمپنی میں میرا کام کیا ہو گا؟

میں نے سوچا کمپنی کو سب سے پہلے بلاک چین چاہیے ہو گا کیونکہ ان کے پاس بلاک چین نہیں ہے۔

میں نے ریکروٹِنگ ایجنٹ سے کہا ’آیا یہ واقعی ایک کرپٹوکرنسی کی کمپنی ہے؟‘

اینجٹ کا جواب تھا کہ میری بات درست ہے۔ یہ ایک کرپٹو کمپنی تھی جو کچھ عرصے سے کام بھی کر رہی تھی، لیکن ان کے پاس بلاک چین نہیں تھا۔ اسی لیے ’ہم چاہتے ہیں کہ آپ کمپنی کو بلاک چین بنا کر دیں۔‘

پیئرک نے پوچھا کہ کمپنی کا نام کیا ہے؟

ایجنٹ کا جواب تھا ’ون کوائن۔‘

یورن پیئرک نے یہ ملازمت نہیں لی۔

جین میک ایڈم کا ’ٹائیکون‘ پیکج

اس واقعے کے چند ماہ پہلے جین میک ایڈم نامی خاتون کو ان کی ایک دوست کا فون آیا تھا جس میں دوست نے جین کو ایک ایسی چیز میں سرمایہ کاری کا بتایا جس میں لاکھوں پاؤنڈ بنائے جا سکتے تھے۔ چانچہ گلاسگو میں اپنے گھر میں بیٹھی ہوئی جین نے کمپیوٹر کھولا اور ’ون کوائن‘ کے لنک پر کِلک کر دیا۔

جین مک ایڈم
،تصویر کا کیپشنجین مک ایڈم

وہ اگلا ڈیڑھ گھنٹہ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی مختلف لوگوں کو یہ کہتے سنتی رہیں کہ ون کوائن کتنی زبردست کرنسی ہے اور یہ کس طرح آپ کی قسمت بدل سکتی ہے۔ جین کے بقول ان کی ویب سائٹ پر نطر آنے والے تمام لوگ ’بہت پرجوش اور جذبات سے بھرپور‘ باتیں کر رہے تھے۔

وہ کہہ رہے تھے آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ ’آپ کتنی خوش قسمت ہیں کہ آپ کو یہ آن لائن سیمینار سننے کا موقع ملا ہے۔ آپ ہمیں صحیح وقت پر جوائن کر رہی ہیں اور جلد ہی یہ کرنسی بھی بِٹ کوائن جیسی بڑی کرنسی بن جائے گی۔ بلکہ بِٹ کوائن سے بھی بڑی ڈجیٹل کرنسی۔‘

اس سیمینار میں میزبانی کے فرائض سرانجام دینے والے افراد ڈاکٹر روجا کے شاندار پس منظر کے گُن گا رہے تھے: آکسفرڈ یونیورسٹی، پھر پی ایچ ڈی، اس کے بعد مشہور مینیجمنٹ کمپنی ’میکنزی اینڈ کمپنی‘ کے ساتھ ملازمت، وغیرہ وغیرہ۔

پھر اس کے بعد ویب سائٹ پر مشہور جریدے ’دی اکانومسٹ‘ کی میزبانی میں ہونے والی ایک کانفرنس میں ڈاکٹر روجا کی تقریر دکھائی گئی۔ یہی وہ چیز تھی جس نے جین کو ون کوائن کا قائل کر دیا۔ جین کے بقول انھوں نے سوچا ’واہ کیا بات ہے خواتین کی طاقت کی۔ (ایک خاتون ہونے کے ناطے) مجھے روجا پر فخر محسوں ہوا۔‘

Ruja Ignatova at the Economist summit
،تصویر کا کیپشنویب سائٹ پر مشہور جریدے ‘دی اکانومسٹ’ کی میزبانی میں ہونے والی ایک کانفرنس میں ڈاکٹر روجا کی تقریر دکھائی گئی۔ یہی وہ چیز تھی جس نے جین کو ون کوائن کا قائل کر دیا

جب تک وہ ویبینارختم ہوا، جین نے ون کوائن میں ایک ہزار یورو لگانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یہ کام آسان تھا۔

آپ نے ہزار یورو کے ون کوائن کے ٹوکن خریدے، ان ٹوکنوں سے جو کوائن حاصل ہوئے وہ آپ کے اکاؤنٹ میں جمع ہو گئے۔ جین کو بتایا گیا کہ ایک دن وہ ان کوائنز کو واپس یورو یا پاؤنڈز میں تبدیل کر سکیں گی۔ جین کو یہ عمل آسان لگا۔ انھوں نے سوچا کہ آیا سرمایہ کاری کے لیے ایک ہزار یورو کی رقم کافی ہو گی یا نہیں؟

اس پر ون کوائن کے پروموٹرز نے کہا کہ اگر آپ واقعی اپنی زندگی بدلنا چاہتی ہیں تو پھر آپ کو ون کوائن کا کوئی بڑا پیکج لینا چاہیے۔ سب سے چھوٹا پیکج 140 یورو کا تھا اور سب سے بڑا ایک لاکھ 18 ہزار یورو کا۔ ایک ہفتے بعد جین نے ’ٹائیکون‘ پیکچ خرید لیا جس کی قیمت پانچ ہزار یورو تھی۔

کچھ ہی عرصے میں جین اپنے دس ہزار یورو ون کوائن میں لگا چکی تھیں اور اپنے دوستوں اور عزیزوں کو بھی قائل کر چکی تھیں کہ وہ اپنے دو لاکھ 50 ہزار یورو بھی لگا دیں۔

اس سرمایہ کاری کے بعد جوں جوں ان کے ون کوائن کی قدر بڑھ رہی تھی وہ ویب سائٹ پر دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی تھیں۔ کچھ ہی عرصے میں یہ مالیت ایک لاکھ یورو ہو گئی، یعنی ان کے سرمائے میں دس گنا اضافہ ہو چکا تھا۔ انھوں نے سیر سپاٹے اور شاپنگ کے منصوبے بنانا شروع کر دیے۔

Short presentational grey line

لیکن سنہ 2016 کے آخری دنوں میں ایک اجنبی شخص نے انٹرنیٹ پر جین سے رابطہ کیا۔ اس شخص کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک اچھا، ہمدرد انسان ہے اور اس نے ون کوائن کے بارے میں خاصی تحقیق کر رکھی ہے۔

اس کے بقول اس کا مقصد صرف ان لوگوں سے رابطہ کرنا ہے جنھوں نے ون کوائن میں سرمایہ کاری کی۔ جین کو اس شخص سے بات کرنے میں ہچکچاہٹ ہوئی لیکن پھر انھوں نے سکائپ کے ذریعے اس سے بات کی۔ ان کی یہ گفگتو جلد ہی دھواں دھار بحث میں تبدیل ہو گئی کیونکہ اس شخص کا اصرار تھا کہ جین ایک بہت بڑے دھوکے کا شکار ہو چکی ہیں۔ اگرچہ جین نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا، لیکن اس گفتگو نے جین کی زندگی کو ایک نیا رخ دے دیا۔

وہ اجنبی شخص ٹموتھی کری تھے جو بِٹ کوائن کے زبردست حامی تھے اور کرپٹو کرنسی کی زور و شور سے وکالت کرتے تھے۔ ٹموتھی کا خیال تھا کہ ون کوائن ڈیجیٹل کرنسی کے خیال کے لیے بدنامی کا باعت بنے گا اور انھوں نے جین کو صاف صاف بتا دیا کہ ون کوائن’ دنیا کا سب سے بڑا فراڈ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ بات ثابت کر سکتے ہیں۔ اس پر جین نے کہا کہ ثابت کر کے دکھائیں۔

اگلے کئی ہفتوں کے دوران ٹموتھی نے جین کو بے شمار معلومات بھیجیں جن میں بتایا گیا تھا کہ کرپٹو کرنسی کام کیسے کرتی ہے۔ کئی مضامین، انٹرنیٹ لِنکس اور یو ٹیوب ویڈیوز کے علاوہ ٹموتھی نے جین کو انٹرنیٹ کے ذریعے ایسے شخص سے متارف کرایا جو خود بلاک چین بنانے کے ماہر ہیں اور یہ بات کہہ چکے تھے کہ ون کوائن کے پاس کوئی بلاک چین موجود نہیں تھا۔

ان تمام معلومات کو سمجھنے میں جین کو تین ماہ لگ گئے، لیکن ان کا فائدہ یہ ہوا کہ جین کے ذہن میں سوال اٹھنا شروع ہو گئے۔ انھوں نے اپنے ون کوائن گروپ میں شامل لوگوں سے پوچھنا شروع کر دیا کہ آیا ون کوائن کے پاس بلاک چین ہے یا نہیں۔ پہلے پہل تو جین کو یہ کہا گیا کہ انھیں یہ بات جاننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، لیکن جب انھوں نے اصرار کیا تو اپریل 2017 میں آخر کار انہیں سچ معلوم ہو گیا۔

ان کے نام کسی نے جو پیغام ریکارڈ کرایا تھا اس میں کہا گیا کہ ’جین ۔ ۔ ون کوائن والے اس قسم کی معلومات کو منظر عام پر نہیں لانا چاہتے جس کی وجہ یہ ہے کہ اس مقام پر کوئی گڑ بڑ نہ ہو جائے جہاں یہ بلاک چین رکھا ہوا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ون کوائن کی ایپ کے لیے بلاک چین کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یوں ہماری بلاک چین ٹیکنالوجی دراصل ایک ایس کیو ایل سرور کی شکل میں ہے جس کے اندر ڈیٹا بیس موجود ہے۔‘

لیکن اس وقت تک جین کو، ٹموتھی کری اور پیئرک کی مہربانی سے، یہ بات معلوم ہو چکی تھی کہ اکیلے ایس کیو ایل ڈیٹا بیس سے کوئی بھی کرپٹو کرنسی نہیں چل سکتی۔ بلاک چین کے برعکس مینیجر جب چاہے اس قسم کے ڈیٹا بیس میں تبدیلی کر سکتا ہے۔

’میں نے سوچا، کیا؟؟؟؟؟؟

’میری ٹانگیں سُن ہو گئیں اور میں دھڑام سے فرش پر گر گئی۔‘

اس کا مطلب یہ تھا کہ جین کو اب سمجھ آ گئی تھی کہ ان کے ون کوائن کی قدر میں جو اضافہ ہو رہا تھا وہ باکل بے معنی تھا۔ ون کوائن کا کوئی اہلکار کہیں بیٹھا ہوا محض ہندسے بدل رہا تھا۔ لیکن اس وقت تک جین، ان کے گھر والے اور دوست اپنے تقریباً ڈھائی لاکھ پاؤنڈ ون کوائن میں جھونک چکے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ شاید ان کی مالی مشکلات ختم ہو جائیں گی لیکن اب تو ان کی جمع پونجی غرق ہوتی نظر آ رہی تھی۔

ڈاکٹر روجا منظر سے غائب

اگرچہ جین میک ایڈم اور چند اور لوگوں کو ساری بات سمجھ آ چکی تھی، لیکن ڈاکٹر روجا ابھی تک مختلف ممالک کے دورے کر رہی تھی اور جگہ جگہ جا کر ون کوائن فروخت کر رہی تھیں۔

ابھی تک ون کوائن کے خریداروں میں اضافہ ہو رہا تھا اور ڈاکٹر روجا نے ون کوائن سے ہونے والی بے شمار کمائی استعمال کرنا شروع کر دی تھی۔ وہ بلغارریہ کے دارالحکومت صوفیہ اور بحیرہ اسود کے ساحل پر واقع سیاحتی مقام سوزو پول میں کروڑوں ڈالر کی جائیداد خرید رہی تھی۔ اپنے فارغ وقت میں وہ ڈوینا نامی پرتعیش کشتی پر پارٹیاں منعقد کر رہی تھیں۔ جولائی 2017 میں ہونے والی ایسی ہی ایک پارٹی میں منتخب مہمانوں کے لیے امریکی پاپ سٹار بیبی ریکسہا نے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

Jamie Bartlett and the Davina
،تصویر کا کیپشندی ڈوینا

لیکن اس بظاہر کامیابی کے پیچھے معالات خراب ہونا شروع ہو چکے تھے۔

مثلاً ایک عرصے سے جس ایکسچینج کے کھلنے کی باتیں ہو رہی تھیں اس میں مسلسل تاخیر ہو رہی تھی۔ ون کوائن کا دعویٰ تھا کہ لوگ اس ایکسچینج سے اپنے ون کوائن کے بدلے میں دوسری کرنسی لے سکیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ سرمایہ کار دن بدن فکر مند ہوتے جا رہے تھے۔

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اکتوبر 2017 میں پرتگال کے دارالحکومت لِزبن میں یورپ بھر کے ون کوائن کے پروموٹرز کا بہت بڑا اجلاس منعقد کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔

لیکن جب وہ دن آیا تو ڈاکٹر روجا، جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ وقت کی پابند ہیں، وہاں نہیں پہنچیں۔

اس اجلاس میں شریک ایک صاحب نے بتایا کہ ’ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ وہ تقریب میں پہنچتی ہی ہوں گیلیکن کسی کو نہیں پتا تھا کہ وہ کہاں ہیں۔‘

’لوگوں نے پریشانی میں بار بار ان کو فون کیا اور موبائل پر پیغامات بھی چھوڑے، لیکن دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آ رہا تھا۔ حتیٰ کہ صوفیہ میں قائم کمپنی کے صدر دفتر میں بھی کوئی نہیں جانتا تھا کہ ڈاکٹر روجا کہاں ہیں۔ وہ غائب ہو چکی تھیں۔

کچھ لوگ فکرمند تھے کہ شاید انھیں مار دیا گیا ہے یا انھیں کسی ایسے بینک کے کہنے پر اغوا کر لیا گیا ہے جو کرپٹو کرنسی کی دنیا میں اتنے بڑے انقلاب سے ڈر گئے تھے۔

لیکن حقیقت یہ تھے کہ ڈاکٹر روجا زیر زمین چلی گئی تھیں یعنی غائب۔ رواں سال کے شروع میں امریکی خفیہ ادارے ایف بی آئی کی جو دستاویزات سامنے آئی تھیں ان کے مطابق لِزبن والے اجلاس کے محض دو ہفتے بعد 25 اکتوبر 2017 کو وہ صوفیہ سے ایتھنز جانے والی رائن ایئر کی ایک پرواز پر سوار ہوئی تھیں۔ اور اس کے بعد وہ بالکل غائب ہو گئیں۔ یہ آخری دن تھا جب کسی نے ڈاکٹر روجا کو دیکھا یا ان کے بارے میں سنا۔

ایم ایل ایس، سب سے کامیاب

اگور ایلبرٹس نے جو بھی پہن رکھا تھا وہ سیاہ رنگ کا تھا یا سنہری۔ سیاہ جوتے اور ان پر سنہری لکیر، سیاہ سوٹ پر سونے کا کام، چشمے کا رنگ بھی بلیک اینڈ گولڈ اور اس کے علاوہ انھوں نے بلیک اینڈ گولڈ انگوٹھی بھی پہن رکھی تھی۔

اگور البرٹس اورآندریا سمبالا ایمسٹر ڈیم کے نہایت مہنگے علاقے میں ایک وسیع و عریض محل میں رہتے ہیں۔ ان کے گھر کا گیٹ دس فٹ بلند ہے جس پر ان کے ناموں کے علاوہ لکھا ہے ’خوابوں کی تعبیر۔‘

اگور البرٹس اورآندریا سمبالا
،تصویر کا کیپشناگور البرٹس اورآندریا سمبالا

ایسٹن مارٹن اور میزراٹی برینڈ کی کاریں پارک ہیں۔ البرٹس ایک غریب علاقے میں پلے بڑھے ہیں۔ پھر وہ نیٹ ورکنگ مارکیٹنگ کی دنیا میں آئے، جسے عرف عام میں ملٹی لیول مارکٹینگ (ایم ایل ایم) بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے خِوب پیسہ بنانا شروع کر دیا۔ دونوں میاں بیوی کہتے ہیں کہ گذشتہ 30 برسوں میں انھوں نے ایک سو ملین ڈالر کمائے۔

ملٹی لیول مارکیٹنگ جسے عرف عام میں پیرامڈ سکیم بھی کہا جاتا ہے، کام کیسی کرتی ہے؟

میں سو ڈالر مالیت کی وٹامن کی گولیاں خرید کر بیچنا شروع کرتا ہوں۔ میں اپنے دوستوں، جارجیا اور فل کو تھوڑے سے منافع پر وٹامن کی گولیوں کا ڈبہ بیچتا ہوں۔ پھر میں جارجیا اور فل کو ملازم رکھ لیتا ہوں اور وہ اسے آگے بیچتے ہیں۔ وہ اب میری ڈاؤن لائن کا حصہ بن چکے ہیں اور یہ سلسلہ اس طرح وسیع ہوتا جائے گا اور یہ پچیس سطحوں تک نیچے جا سکتا ہے۔

یوں اس نیٹ ورک میں ہر کوئی وٹامن کی گولیاں بیچ رہا ہو گا اوراس نیٹ ورک کی بلند ترین سطح پر میں سب سے زیادہ منافغ کما رہا ہوں گا۔

ملٹی لیول مارکیٹنگ غیر قانونی نہیں ہے۔ ایم وے اور ہربل لائف جیسی کمپنیاں مارکٹینگ کے اس طریقے کو استعمال کرتی ہیں۔ لیکن مارکیٹنگ کا یہ طریقہ متنازعہ ضرور ہے کیونکہ اس میں چند لوگ ہی پیسے بناتے ہیں۔

ایم ایل ایس اس لیے بھی متنازعہ ہے کہ اس میں منافع کمانے کے بلند و بانگ کیے جاتے ہیں اور سیل ٹارگٹ بہت مشکل رکھے جاتے ہیں۔

البرٹس مئی 2015 تک ایک کامیاب ایم ایل ایم سیلر بن چکے تھے۔ انھیں ون کوائن کے دبئی میں ہونے والے شو کے لیے دعوت ملی جہاں ان کی ملاقات ایسے لوگوں سے ہوئی جو کرپٹو کرنسی کے کاروبار میں بہت دولت کما رہے تھے۔

وہ ڈاکٹر روجا کے شہزادیوں جیسے ملبوسات اور مالی انقلاب کے حوالے سے ان کے خیالات سے بہت متاثر ہوئے۔ جب وہ دبئی سے واپس لوٹے تو انھوں نے اپنی ساری توانائیاں کرپٹو کرنسی کے کاروبار میں لگا دیں اور اپنے نیٹ ورک کے تمام لوگوں سے کہا کہ جو کچھ بھی کر رہے ہو اس روک دو اورون کوائن بیچنا شروع کر دو۔

‘ہم نے اپنی ٹیموں کو اکٹھا کیا اور پاگلوں کی طرح کام کرنے لگے ۔ پہلے ماہ ہم نے برائے نام سرمایہ کاری سے 90 ہزار ڈالر کمائے۔‘

اگور البرٹس اورآندریا سمبالا
،تصویر کا کیپشناگور البرٹس اورآندریا سمبالا

ڈاکٹر روجا کا کمال یہ تھا کہ انھوں نے کامیاب ملٹی لیول سیلرز کو اپنے ساتھ لگایا اور اپنے جعلی ڈیجیٹل کوائن کو بیچنا شروع کر دیا۔ ڈاکٹر روجا کا الحاق جب ایم ایل ایس سے ہوا تو ایف بی آئی کے مطابق خود ڈاکٹر روجا نے کہا تھا ’وال سٹریٹ کی کتیا کا ایم ایل ایس سے الحاق۔‘

یہی ون کوائن کی کامیابی کا راز تھا۔ وہ نہ صرف ایک جعلی کرپٹو کرنسی تھی بلکہ ڈاکٹر روجا اور ان کے نئے ساتھیوں نے اسے ایک پرانی طرز کی پیرامڈ سکیم میں بدل کر مصنوعات کے طور پر فروخت کرنا شروع کر دیا اور ون کوائن جنگل میں آگ کی طرح پھیل گیا۔

اگور البرٹس ون کوائن کے ذریعے ہر ماہ ایک ملین ڈالر کمانا شروع ہو گئے اور یہ نیٹ ورک مارکیٹ سے بڑی شے بن گئی۔

اگور البرٹس اور آندریا نے ون کوائن کے ذریعے جو بھی دولت بنائی اس کا 60 فیصد انھیں کیش کی صورت میں ملتا تھا جبکہ بقیہ 40 فیصد ون کوائن کی شکل میں۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب اگور البرٹس ہر ماہ دو میلن ڈالر کما رہے تھے۔ اس سکیم میں شامل ہر شخص کی طرح وہ بھی سمجھتے تھے کہ وہ اپنی قسمت سنوار رہے ہیں۔

اگور البرٹس کہتے ہیں وہ ون کوائن کو مارکیٹ کر کے دنیا کے سب سے امیر شخص بننا چاہتے تھے۔ ‘میں نے آندریا سے کہا کہ ہمیں ایک ایک سو ملین ون کوائن جمع کرنے ہیں اوراور جب ون کوائن کی مالیت ایک سو ڈالر ہو جائے گی تو ہم بل گیٹس سے زیادہ دولت مند ہو جائیں گے ۔ یہ ایک سادہ ریاضی کی بات ہے۔‘

اگور البرٹس اورآندریا سمبالا
،تصویر کا کیپشن’میں نے آندریا سے کہا کہ ہمیں ایک ایک سو ملین ون کوائن جمع کرنے ہیں اوراور جب ون کوائن کی مالیت ایک سو ڈالر ہو جائے گی تو ہم بل گیٹس سے زیادہ دولت مند ہو جائیں گے ۔ یہ ایک سادہ ریاضی کی بات ہے’

ملٹی لیول مارکٹنگ میں شامل افراد اپنے قریبی لوگوں کو ریکروٹ کرتے ہیں جس سے ایک ذمہ داری کا احساس پیدا ہو جاتا ہے اور کسی ایک فرد کو مورد الزام ٹھہرانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اگر اس شے کو بیچنے والے نے اس میں سرمایہ بھی کر رکھی ہے، تو پھر وہ متاثرہ افراد میں شامل ہو جاتا ہے۔

جب لزبن میں ہونے والی کانفرنس میں ڈاکٹر روجا شریک نہ ہوئیں، تو اگور البرٹس کو جین میک ایڈم کی طرح شکوک پیدا ہونے شروع ہو گئے اور انھوں نے کرنسی کے بلاک چین کی شہادتیں مانگنی شروع کر دیں۔ جب انھیں اس کی کوئی شہادت نہ ملی تو انھوں نے دسمبر 2017 میں ون کوائن کی مارکیٹنگ ختم کر دی۔

جب میں نے البرٹس سے پوچھا کہ کیا آپ کو اس بات پر ندامت ہے کہ آپ نے لوگوں کو ایک ایسی چیز بیچی جس کا کوئی وجود ہی نہ تھا، اور آپ نے اس عمل سے اتنی دولت کمائی، تو ان کا جواب تھا کہ ’مجھے ذمہ داری کا احساس ہے لیکن کوئی ندامت نہیں ہے۔ کسی چیز پر یقین کرنے سے آپ پر الزام عائد نہیں کیا جا سکتا ۔ مجھے علم نہیں تھا کہ یہ سب جھوٹ ہو سکتا ہے اور اس وقت تک میں بلاک چین کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ون کوائن کی خرید پر دسویں لاکھ ڈالر خرچ کیے اور شاید کسی اور نے اس پر اتنی رقم خرچ نہیں کی ہو گی۔

اس کے برعکس جین میک ایڈم ندامت کا بھاری بوجھ اٹھائے پھر رہی ہیں۔

جب میں نے ان سے پوچھا کہ انھوں نے ون کوائن سے کتنے منافغ کمایا تو ان کا جواب تھا صرف 1800 پاؤنڈ کیش جو انھوں نے ون کوائن خریدنے میں صرف کر دیے۔ جین میک ایڈم اپنے قریبی لوگوں سے انتہائی نادم ہیں جنھیں انھوں نے ون کوائن خریدنے پر تیار کیا۔

وہ اپنے والد سے بھی بہت شرمندہ ہیں جو اب انتقال کر چکے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے والد ایک کان کن تھے، اور ساری زندگی محنت کر کے کچھ رقم اکٹھی کی تھی جو والد نے جین کے لیے چھوڑی تھی، مگر جین نے وہ بھی ضائع کر دی۔

دولت کا پیچھا اور صحافی

یہ معلوم کرنا انتہائی مشکل ہے کہ ون کوائن کو خریدنے میں کل کتنی رقم خرچ کی گئی۔ بی بی سی کو حاصل ہونے والی دستاویزات ظاہر کرتی ہیں کہ سنہ 2014 اور سنہ 2017 کے درمیانی عرصے میں چار ارب یورو خرچ کیے گئے۔

مجھے ایک سے زیادہ افراد نے بتایا ہے کہ یہ رقم 15 ارب ڈالر بھی ہو سکتی ہیں۔ صحافت کا اصول ہے کہ’دولت کا پیچھا کرو۔’

میں نے ’دی مسنگ کرپٹو کوئین‘ کے نام سے نشر ہونے والے پوڈ کاسٹ کی پروڈیوسر جورجیا کیٹ کے ہمراہ اولیور بلوو سے ملاقات کی جو خود کو منی لینڈ کا ماہر گردانتے ہیں۔

اولیور بلوو بتاتے ہیں کہ چُھپائی ہوئی دولت کو ڈھونڈنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا لگتا ہے۔ وہ کہتے کہ مجرم کمپنیوں اور بینک اکاونٹس کا ایک ایسا پیچیدہ نظام بناتے ہیں جس میں ان کے اثاثے نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں لیکن وہ موجود رہتے ہیں جنھیں وہ مختلف چیزیں خریدنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ مجرم اس رقم کو سیاسی اثر و رسوخ خریدنے، عالی شان گھر خریدنے اور پرتعیش کشتیاں خریدنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن صحافی یا پولیس اہلکار ان کے اثاثوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ان سے اوجھل رہتے ہیں۔

ون کوائن ویب سائٹ
،تصویر کا کیپشنون کوائن ویب سائٹ

اس کی ایک مثال یہ ہے۔

ڈاکٹر روجا نے بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ میں ایک جائیداد خریدی۔ تکنیکی طور یہ جائیداد ون پراپرٹی نامی کمپنی کی ملکیت تھی۔

ون پراپرٹی رسک لمیٹڈ نامی کمپنی کی ملکیت تھی۔ ڈاکٹر روجا رسک لمیٹڈ کی مالک تھیں لیکن انھوں نے اپنی پراپرٹی پاناما کے کسی شہری کے حوالے کر دی تھی جس کا انتظام وہ شخص نہیں بلکہ پرگن رسک لمیٹیڈ چلاتی ہے۔

پرگن کمپنی آرٹیفیکس نامی کمپنی کی ملکیت ہے جو ڈاکٹر روجا کی والدہ ویسکا کی ملکیت ہے۔ سنہ 2017 میں آرٹیفیکس کی ملکیت کسی 20 سالہ نامعلوم شخص کو بیچ دی گئی۔

ایک فرانسیسی صحافی میکسم گرمبرٹ نے کئی ماہ تک ون کوائن کے نظام کو سمجھنے کی کوشش کی اور جتنا ممکن ہو سکا کمپنیوں کے نام اور بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات اکٹھی کیں۔ جب میں نے یہ تفصیلات اولیور بلوو کو دکھائیں، تو انھوں نے فوراً کئی برطانوی کمپنیوں کو پہچان لیا۔ اولیور بلوو کے مطابق برطانیہ میں یہ کمپنیاں قائم کرنا بہت آسان ہے اور یہ قانونی لگتی ہیں۔

انھوں نے فہرست میں سے ایک کمپنی کو اٹھایا اور کمپنیز ہاؤس کی ویب سائٹ سے چیک کرنے کی کوشش کی۔ قانون کے مطابق ہر چیز کو شفاف ہونا چاہیے اور اس ویب سائٹ پر کمپنی کی تمام تفصیلات مہیا ہونی چاہییں۔

کہنے کو تو یہ بدعنوانی کے خلاف ایک ہتھیار ہے لیکن اس ویب سائٹ پر اگر مزید تحقیق کریں تو آپ کو پتا چلے گے کہ بعض کمپنیاں ضروری معلومات نہیں دیتیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں ہوتی۔

اولیو بلوو نے ایک اور کمپنی کو چیک کیا اور کہا ’دیکھو یہ کلاسک کیس ہے، کمپنی کا نام موجود ہے، نہ تو کمپنی کی مالی معلومات ہیں اوراس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کمپنی کو چلا کون رہا ہے۔ یہ قانونی طور پر غیرقانونی ہے لیکن کوئی اسے چیک ہی نہیں کرتا ہے اور یہ ایک شیل کمپنی سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔’

آج کی دنیا کی جڑی ہوئی معیشت میں اثاثے منظر عام سے ایسے غائب ہو جاتے ہیں کہ آپ سایوں کا پیچھا کرتے رہیں۔

Missing Cryptoqueen podcast logo

جب آپ اربوں یورو کے فراڈ سے نمٹ رہے ہوں، تو کوئی بعید نہیں کہ اس میں مشتبہ گروہ بھی شامل ہوں۔ میں نے اور جارجیا نے جن لوگوں سے بات کی ہے ان میں کئی تاریک دنیا کے کئی پراسرار کرداروں کے نام لینے سے کتراتے ہیں۔

بلاک چین ماہر یورن یرک جنھوں نے ون کوائن کا بلاک چین نہ ہونے کا بھانڈا پھوڑا تھا، انھوں نے ہمیں بتایا کہ ‘اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ مجھے ان حالات کا سامنا کرنے پڑے گا تو میں خاموشی سے جاب کی آفر کو ٹھکرا کر خاموش رہتا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ انھیں موت کی دھمکیاں ملیں۔ جب میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کون لوگ ہیں جو انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے ہیں تو انھوں نے اس کی وضاحت کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ بہت ہی خوفناک ہے اور اس پر بڑی تیزی سے عمل ہوتا ہے۔‘

ڈاکٹر روجا نے بھی شاید اتنے بڑے فراڈ کا نہیں سوچا تھا۔

یورن یرک کے خیال میں ڈاکٹر روجا نے بھی نہیں سوچا تھا کہ ون کوائن اتنا بڑا ہو جائے گا۔ وہ بتاتے ہیں کہ شروع میں ون کوائن کے ساتھ کام کرنے والوں نے مجھے بتایا کہ ون کوائن اربوں ڈالر فراڈ کا کسی نے سوچا بھی تھا۔ ڈاکٹر روجا نے ون کوائن کو بند کرنے کی بھی کوشش کی لیکن مجرموں نے انھیں ایسا نہیں کرنے دیا۔’

یورن یرک
،تصویر کا کیپشنیورن یرک

وہ مزید بتاتے ہیں کہ جب ون کوائن کی مالیت 10 ملین ہوئی، پھر 20 ملین پھر 30ملین ہوئی تو کچھ ایسا ہوا کہ جسے ڈاکٹر روجا روک نہیں سکیں۔

میرے خیال میں سنہ 2017 کے موسم خزاں میں وہ اتنی خوفزدہ تھیں کہ انھوں نے غائب ہونے کا فیصلہ کر لیا۔

اگور البرٹس بھی اس میں ’بہت بااثر’ لوگوں کے ملوث ہونے کی بات کرتے ہیں۔ جب میں نے ایسے بااثر افراد کی شناخت جاننے کی کوشش کی تو انھوں نے کہہ دیا ‘نہیں نہیں میں نہیں بتا سکتا۔ ہم اپنی زندگیوں کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔’

امریکہ کے محمکۂ انصاف کے مطابق ڈاکٹر روجا اور ان کے بھائی کونسٹینٹن اگناتوو کے مابین روابط تھے اور جب ڈاکٹر روجا منظر عام سے غائب ہوئیں تو انھوں نے ون کوائن کے معاملات کو دیکھنا شروع کیا۔ کونسٹینٹن اگناتوو کے شمالی یورپ کے منظم جرائم پیشہ گروہوں کے ساتھ بھی روابط تھے۔

کونسٹینٹن اگناتوو
،تصویر کا کیپشنکونسٹینٹن اگناتوو

خاندان کے اندر کی بات

چھ مارچ 2019 کو جب ڈاکٹر روجا کے بھائی کونسٹینٹن اگناتوو لاس اینجلس کے ایئرپورٹ پر تھے جہاں سے وہ بلغاریہ واپس آنے کے لیے فلائٹ کا انتظار کر رہے تھے تو ایف بی آئی نے انھیں گرفتار کر لیا اور ان پر ون کوائن کے حوالے سے فراڈ کا مقدمہ دائر کیا۔

تقریباً اسی وقت امریکی محکمہ انصاف نے ڈاکٹر روجا کی غیر موجودگی میں ان کے خلاف منی لانڈرنگ، فراڈ کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی درج کر لیا، لیکن اس سب کے باوجود ون کوائن کا کام چلتا رہا اور لوگ اس میں پیسہ لگاتے رہے۔

جب ہم نے ڈاکٹر روجا کے خلاف مقدمہ درج ہونے کے ایک ماہ بعد صوفیہ کا دورہ کیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ ڈاکٹر روجا کے محل نما مکان کو تالے لگے ہوئے ہیں لیکن صوفیہ میں ون کوائن کا دفتر کھلا تھا اور وہاں کام جاری تھا۔

بلغاریہ میں ون کوائن کا ہیڈ آفس
،تصویر کا کیپشنبلغاریہ میں ون کوائن کا ہیڈ آفس

فراڈ کی واضح نشانیوں کے باوجود اتنے زیادہ لوگ ون کوائن پر اعتبار کیوں کرتے رہے؟

ون کوائن کے سرمایہ کاروں نے ہمیں بتایا کہ ابتدا میں ان کو یہ ڈر تھا کہ وہ ایک بڑے منافع سے محروم ہو جائیں گے۔ انھیں بتایا جاتا تھا کہ ون کوائن بٹ کوائن کے بعد سب سے بڑی چیز ہے اور جب سرمایہ کار بٹ کوائن سے منسلک لوگوں کی تقدیر بدلنے کی کہانیں سننتے تھے تو انھیں ڈر لگتا تھا کہ وہ کہیں ون کوائن کےذریعے امیر ہونے کا موقع ہی ضائع نہ کر دیں۔

کچھ لوگ ڈاکٹر روجا کی شخصیت کی وجہ سے ون کوائن سے جڑے رہے۔ ان سرمایہ کاروں کو کرپٹو کرنسی کی ٹیکنالوجی کا کچھ معلوم نہیں ہو گا لیکن وہ ڈاکٹر روجا کو اکانومسٹ کانفرنس میں تقریریں کرتے دیکھا تھا۔

ان کو ڈاکٹر روجا کی اعلی تعلیم یافتہ ہونے کی یقین دہانی کے لیے ان کی ڈگریاں دکھائی گئیں اور فوربز میگزین میں چھپنے والی تصاویر کو بطور شہادت پیش کیا کہ وہ ایسی کامیاب کاروباری شخصیت ہیں جن کے ساتھ جڑے رہنے سے ان کی قسمت بھی بدل سکتی ہے۔

جہاں تک ڈاکٹر روجا کی ڈگریوں کا تعلق ہے وہ تو اصلی ہیں لیکن فوربز کے سرورق پر چھپنی والی تصویر اصلی نہیں تھی۔ حقیقت میں ان کی تصویر فوربز کے اندر والے صحفے پر شائع ہوئی تھی لیکن اسے اس انداز میں شائع کیا گیا کہ فرنٹ کور کو ہٹا دیں تو وہ تصویر حقیقت میں سرورق نظر آتی ہے۔

ون کوائن کے ساتھ جڑے رہنے کی وجہ صرف امیر ہونے کے خواب ہی نہیں تھے۔

جب جین میک ایڈم نے ون کوائن میں سرمایہ کاری شروع کی تو انھیں ہمیشہ یہ بتایا گیا کہ اب وہ ون کوائن فیملی کی رکن ہیں اور انھیں ون کوائن کے بارے میں منفی باتیں پھیلانے والوں کی باتوں پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

انھیں وٹس ایپ گروپ کا ممبر بنایا گیا جہاں انھیں اپنی لیڈر کی طرف سے معلومات ملتی تھیں جو وہ بلغاریہ کے دفتر میں بیٹھ کر اپنے ‘خاندان’ میں پھیلاتی تھی۔

جین میک ایڈم کہتی ہیں کہ انھیں بتایا جاتا تھا کہ بٹ کوائنر والے دراصل ون کوائن سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کی باتیں نہ سنیں، نہ ہی گوگل کی باتیں سنیں۔ وہ کہتی تھیں کہ اگر آپ کے ذہن میں ون کوائن کے بارے شکوک و شبہات ہیں تو پھر آپ کو ون کوائن فیملی کا ممبر ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

لندن سکول آف اکنامکس کے پروفیسر ایلین بارکر، جنھوں نے سائنٹالوجسٹ اور مونیز جیسے گروہوں کو سمجھنے میں برسوں صرف کیے ہیں، کہتے ہیں کہ ون کوائن بھی ایک مسلک یا مذہبی گروہ کی ماند تھا جس میں شامل لوگوں کو یہ باور کرایا جاتا تھا کہ وہ کسی بڑی تبدیلی کی مہم کا حصہ ہیں جو دنیا کو بدلنے جا رہی ہے۔

اور جب لوگ ون کوائن کے گروپ میں شامل ہو جاتے تو کسی قسم کی شہادتیں بھی انھیں اس سے علیحدہ کرنے کے لیے ناکافی تھیں۔

پروفیسر ایلین بارکر کہتی ہیں کہ ایسے گروہ میں جب پیشنگوئی غلط بھی ثابت ہو جائے تو اس کو ماننے والوں کا اس پر یقین اور پختہ ہو جاتا ہے اور خاص طور پر جب آپ نے اس میں پیسے کے علاوہ اپنی شہرت، ذہانت بھی صرف کی ہو تو آپ سوچتے ہیں کہ تھوڑا سا اور انتظار کر لینا چاہیے۔

ایک مثالی دنیا میں یہ امید کی جاتی ہے کہ حکومتی ادارے یا ریگولیٹرز صارفین کو ون کوائن جیسی دھوکہ دہی سے محفوظ رکھیں گے لیکن پوری دنیا میں حکام بہت سست روی سے اس کی طرف آتے ہیں اور خاص طور پر کرپٹو کرنسی کی طرف جو ایک بہت نئی چیز ہے۔

برطانیہ کی فنانشل کنڈکٹ اتھارٹی (ایف سی اے) کی ذمہ داری ہے کہ وہ برطانیہ کے صارفین کو ایسے فراڈ سے خبردار کرے۔ ایف سی اے نے سنہ 2016 میں ون کوائن کے بارے میں اپنی ویب سائٹ پر ایک انتباہ جاری کیا تھا کہ ون کوائن میں سرمایہ کاری سے ہوشیار رہیں۔ لیکن اس انتباہ کو ایک سال بعد اسے وہاں سے ہٹا لیا گیا۔

ایف سی اے کی طرف سے ون کوائن کے بارے میں اپنی وارننگ کو واپس لینے کو ون کوائن کے حامیوں نے اس کے درست اور قانونی ہونے کی شہادت کے طور پر پیش کیا۔

جب ایف سی اے نے اپنی وارننگ کو ویب سائٹ سے ہٹا لیا تو برطانیہ میں ون کوائن کی کئی تقریبات کا انعقاد ہوا، لوگ اس میں سرمایہ کاری کرتے رہے اور جب بی بی سی نے ایف سی اے سے اس کے بارے میں پوچھا تو وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔

یہ حقیقت کہ ون کوائن ایک عالمی آپریشن تھا، یہ بھی حکام کے لیے پریشانی کا سبب تھا۔ لندن کی پولیس نے دو سال تک ون کوائن کے بارے میں تحقیق کرنے کے بعد وہ تحقیقات ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔

لندن پولیس نے اپنے بیان میں کہا کہ چونکہ ون کوائن سے متعلق کمپنیاں اور افراد برطانیہ کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں اس لیے ہم برطانیہ میں ان کے کسی اثاثے کی نشاندہی نہیں کر سکتے جس سے متاثرین کے نقصان کو پورا کیا جا سکے۔

سٹی آف لندن پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کسی فرد یا افراد کے خلاف مجرمانہ کارروائی میں ملوث ہونے پر قانونی کارروائی شروع کرنے کے لیے شواہد ناکافی تھے۔‘

پولیس نے مزید کہا کہ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ انھیں ون کوائن کے بارے میں کوئی تحفظات نہیں ہیں۔ ’لندن سٹی پولیس قانون نافذ کرنے والی تمام غیر ملکی ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی اور اگر کسی شخص کو کوئی شکایت ہے تو وہ ایکشن فراڈ آن لائن کے ساتھ رابطہ کرے۔‘

Ruja Ignatova

یوگنڈا کا المیہ

یوگنڈا کے علاقے نتانگامو ریجن میں زیادہ لوگوں کی آمدن کا ذریعہ کیلے، کساوا، میٹھے آلو، مٹر اور مونگ پھلی کی پیداوار ہے۔

22 سالہ ڈینیئل لائنڈ ہارٹ اسی علاقے کے رہائشی تھے۔ وہ ون کوائن خریدنے کے لیے سات لاکھ شلنگ اکٹھی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

انھوں نے چار لاکھ شلنگ تو خود اکٹھے کر لیے تھے مگر ون کوائن میں پہلی سرمایہ کاری کے لیے مزید تین لاکھ شلینگ چاہیے تھے۔ وہ اپنے گاؤں گئے اور اپنے بھائی کو اپنا کل اثاثہ، تین بھیڑیں، فروخت کرنے پر رضامند کر لیا۔

Villagers in Daniel's village in the Ntangamo region

اب وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔

ڈینیئل یوگنڈا کے ہزاروں لوگوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے ڈاکٹر روجا کی جعلی کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کی۔

جب یورپ میں لوگوں کی ون کوائن میں دلچسپی کم ہو گئی تو افریقہ، مشرق وسطیٰ اور انڈیا ون کوائن کے لیے بہت اہم ہو گئے اور وہاں سے سرمایہ کاری ہونے لگی۔

ڈینیئل نے مجھے اور جارجیا کو پروڈنس نامی نرس سے ملاقات کرائی جنھوں نے سب سے پہلے ڈینیئل کو ون کوائن سے متعارف کروایا تھا۔ ڈینیئل اور پروڈنس کی دوستی اب بھی برقرار ہے، حالانکہ ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ ون کوائن ایک فراڈ تھا۔

ڈینیئل اور پروڈنس
،تصویر کا کیپشنڈینیئل اور پروڈنس

پروڈنس کپمالہ میں ایک نرس ہیں۔ انھوں نے سوچا کہ وہ ون کوائن فروخت کر کے دولت کما سکتی ہیں اور انھوں نے مزید لوگوں کو ون کوائن خریدنے پر قائل کرنا شروع کر دیا۔

ون کوائن کے ایک پروموٹر نے پروڈنس کو ایک اچھی سے کار خرید کر دی تا کہ وہ لوگوں کو متاثر کر سکیں۔ ان کو ہدایت کی جاتی تھی کہ وہ اپنی کار میں ایسے وقت لوگوں کے پاس جائیں جب وہ فصلیں کاشت کر رہے ہوں اور ان کے پاس پیسے ہوں۔

پروڈنس کہتی ہیں کہ دیہات میں لوگ شہروں میں بسنے والے لوگوں پر اعتبار کرتے ہیں۔

کئی لوگوں نے ون کوائن کا پیکج خریدنے کے لیے اپنے مال مویشی بیچے، اپنی زمین بیچی اور کچھ نے اپنے گھر بھی بیچ دیے۔ اب ان لوگوں میں سے کئی کے بچے سکول نہیں جا پا رہے ہیں جبکہ کچھ کے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ بھی نہیں بچی۔

جب پروڈنس سے لوگ پوچھتے ہیں کہ ہمیں منافع کب ملے گا تو وہ لوگوں کو صبر کی تلقین کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں لوگوں کو سچ نہیں بتا سکتی اور میں تو اب چھپ کے رہتی ہوں۔

’جن لوگوں نے میرے کہنے پر ون کوائن میں سرمایہ کاری کی، اگر میں ان کے سامنے آ گئی تو وہ مجھے قتل بھی کر سکتے ہیں۔‘

پروڈنس نے اب لوگوں کو ون کوائن بیچنا ختم کر دیا ہے لیکن کمپالا میں اب بھی کچھ لوگ ون کوائن فروخت کر رہے ہیں۔ کمپالا کا ایک چرچ بھی ون کوائن کو بیچنے میں مصروف ہے۔

بشپ فریڈ کی ایسی ویڈیو موجود ہیں جن میں وہ دوران عبادت ون کوائن کی مشہوری کرتے نظر آتے ہیں۔ بشب فریڈ یوگنڈا میں ون کوائن کے سب سے بڑے پروموٹر ہیں لیکن اب انھوں نے کم از کم چرچ میں اس کی تشہیر کرنا ختم کر دی ہے۔

ڈینیئل اور ان کی والدہ
،تصویر کا کیپشنڈینیئل اور ان کی والدہ

ڈینیئل ہمیں اپنی والدہ سے ملوانے لے گئے جنھوں نے اپنے بیٹے کے کہنے پر ساری زندگی کی جمع پونجی، یعنی تین ہزار ڈالر ون کوائن پیکج پر خرچ کر دیے تھے۔

ڈینیئل نے اپنی ماں کو نہیں بتایا ہے کہ ان کی رقم ڈوب چکی ہے۔ جب ڈیینئل کی والدہ نے ہمیں دیکھا تو کہنے لگیں انھیں ایسا لگا کہ شاید ان کی دولت واپس آنے لگی ہے۔ انھوں نے ہمیں کہا ‘جب پیسے آپ کے ہوں اور کوئی لے جائے تو بہت دکھ ہوتا ہے۔‘

تم غائب کہاں ہو، ڈاکٹر روجا؟

جب ہم نے 2018 میں مسنگ کرپٹو کوئین کے پوڈکاسٹ پر کام کرنا شروع کیا تو کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ ڈاکٹر روجا کہاں ہیں۔ رواں سال کے شروع میں امریکی حکام نے انکشاف کیا کہ ڈاکٹر روجا کو 25 اکتوبر 2017 کو ایتھنز میں دیکھا گیا ہے۔ اس کے باوجود اس سوال کا جواب نہیں ملا کہ وہ ایتھنز کے بعد کہاں گئیں۔

ڈاکٹر روجا
،تصویر کا کیپشنڈاکٹر روجا

ملٹی لیول مارکیٹنگ کے بادشاہ اگور البرٹس نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے سنا ہے کہ ڈاکٹر روجا کے پاس یوکرین اور روس کا پاسپورٹ بھی ہے اور وہ روس اور دبئی کے درمیان سفر کرتی رہتی ہیں۔

کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاید وہ بلغاریہ کے بااثر لوگوں کی حفاظت میں ہیں۔ جبکہ کچھ لوگوں کے خیال میں وہ پلاسٹک سرجری کروا کے باآسانی خود کو چھپا سکتی ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ شاید ڈاکٹر روجا کی موت ہو چکی ہے۔

جب ہم نے ایک تجربہ کار پرائیویٹ تفتیش کار ایلن میکلین سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ کسی شخص کو تلاش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ یہ جانیں کہ وہ شخص کہاں پیدا ہوا، کہاں پلا بڑھا،اور امیر ہونے سے پہلے اس کا طرز زندگی کیا تھا۔

پھر یہ جاننے کی کوشش کریں کہ دولت مند ہونے کے بعد وہ کہاں جانا پسند کرتا تھا، پرتعیش کشتیاں کہاں سے خریدتا تھا۔ پرائیویٹ تفتیش کار سے ملاقات کے چند ہفتوں بعد انھوں ایک بار پھر ہم سے رابطہ کیا اور کچھ انتہائی دلچسپ معلومات کا تبادلہ کیا۔

ایلن میکلین کے کچھ دوستوں کو ایتھنز سے تصدیق ہوئی کہ ڈاکٹر روجا کو ایتھنز کے ریسٹورنٹ میں ڈنر کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

جب ہم نے ایتھنز کے ریسٹورانٹ کے سٹاف سے ڈاکٹر روجا کی وہاں آمد کے بارے میں بات کی تو انھوں نے تصدیق کی کہ انھوں نے اس خاتون کو دیکھا ہے۔

ایک اور اشارہ اس وقت ملا جب ہم نے بخارسٹ میں ون کوائن کے مقابلہ حسن میں شرکت کی۔ وہ لوگ مہنگی شراب پی رہے تھے اور ہمیں اس انداز میں گھور رہے تھے جس سے ہم پریشانی لاحق ہو گئی۔

ہم نے یہ سب کچھ برداشت کیا اور مقابلہ حسن کے برطانوی شرکا کی حمایت کی۔ لیکن ہم نے بعد میں سنا کہ ڈاکٹر روجا تو اسی مقابلے کی تقریب میں موجود تھیں اور اسی کمرے میں تھیں جہاں ہم تھے۔ بس فرق یہ ہے کہ پلاسٹک سرجری کے بعد انھیں پہچاننا بہت مشکل ہو چکا ہے۔

ڈاکٹر روجا کو یونان یا رومانیہ سے امریکہ کے حوالے کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے کہ وہ ان ممالک میں موجود تھیں تو شاید انھوں نے جعلی شناخت بھی حاصل کر لی ہو۔

ڈاکٹر روجا نے سوشل میڈیا پر اپنی بیٹی کے ساتھ تصویر بھی شیئر کی تھی
،تصویر کا کیپشنڈاکٹر روجا نے سوشل میڈیا پر اپنی بیٹی کے ساتھ تصویر بھی شیئر کی تھی

ہم نے ایلین میکلین کے بتائے ہوئے گُر کے مطابق ڈاکٹر روجا کو وہاں ڈھونڈنے کا فیصلہ جہاں انھوں نے ماضی میں وقت گزارا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ انھوں نے جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں کافی وقت گزارا ہے اور ان کی شادی بھی جرمنی میں ایک وکیل سے ہوئی تھی۔

ہم ڈاکٹر روجا کی تصاویر اور مائیکرو فون لے کر فرینکفرٹ گئے اور لوگوں سے ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے ایک وکیل سے بھی فون پر بات کی جو شاید ان کا شوہر ہے یا تھا لیکن وہ ہم سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔

کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم ڈاکٹر روجا کے قریب پہنچ گئے ہیں یا وہ یورپ کے دل یا اس کے مرکز میں کہیں مقیم ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم۔

فرینکفرٹ شاید ان شہروں میں سے ایک ہے جہاں وہ جاتی ہیں۔

ہمیں کچھ روز بعد ایک فون کال موصول ہوئی۔ ہم اس کالر کی شناخت ظاہر نہیں کر سکتے ۔ اس نے ہمیں بتایا ہے کہ فرینکفرٹ یقیناً ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں ڈاکٹر روجا بہت وقت گزارتی ہیں۔ لیکن ہمیں ابھی وہ گھر ڈھونڈنا ہے جہاں وہ رہتی ہیں۔ ہمارے ذرائع نے کہا ‘تم اسے ڈھونڈ لو گے، مزید کوشش کرو۔’

کرپٹو کوئین کو معلوم ہو گا کہ ہم اسے ڈھونڈتے پھر رہے ہیں اور وہ ہم پر ہنستی ہوں گی۔

ڈاکٹر روجا سٹیج پر
،تصویر کا کیپشنڈاکٹر روجا سٹیج پر

جب پانچ نومبر 2019 کو ہمارے پوڈ کاسٹ کی پہلی قسط نشر ہوئی، اسی روز ڈاکٹر روجا کے بھائی کونسٹینٹن کو امریکہ کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا جہاں انھوں نے ایک وکیل کے خلاف گواہی دی جس پر الزام ہے کہ اس نے 400 ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کی جو ون کوائن نے امریکہ سے بنائے تھے۔

ڈاکٹر روجا کے بھائی نے کئی الزامات کو تسلیم کر لیا اور عدالت کو ایسا تاثر دیا کہ ان کی بہن نے انھیں اسی طرح دھوکہ دیا جس طرح انھوں نے دوسرے سرمایہ کاروں کو دھوکہ دیا۔

ڈاکٹر روجا کے بھائی نے بتایا کہ ان کی بہن کے پاس ‘بہت بڑا پاسپورٹ’ ہے۔

ون کوائن نے ہمیشہ کسی غلط کام کی تردید کی ہے۔ ون کوائن نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ون کوائن کرپٹو کرنسی کی تعریف کے معیارات پر پورا اترتا ہے۔‘

ون کوائن نے کہا کہ ’ہمارے شراکت دار، پوری دنیا میں جہاں بھی ہماری پروڈکٹ کے بارے میں غلط بیانی کی جاری ہے، اس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔‘ ون کوائن نے جس انداز میں لوگوں کو دھوکہ دیا ہے یہ اتنا انوکھا نہیں بلکہ انھوں نے اسے ڈیجیٹل تڑکا لگایا ہے۔

لیکن ون کوائن کا فراڈ ٹیکنالوجی کے ایک تاریک پہلو سے پردہ اٹھاتا ہے۔ ٹیکنالوجی یقیناً ان لوگوں کے نئے مواقع پیدا کرتی ہے جو اسے سمجھتے ہیں لیکن ٹیکنالوجی ایسے افراد کے استحصال کا ذریعہ بھی بن جاتی ہے جو اسے سمجھتے نہیں ہیں۔

ڈاکٹر روجا نے معاشرے کے ان ہی کمزرو پہلوؤں سے فائدہ اٹھایا۔ انھیں معلوم تھا کہ دنیا میں ایسے مایوس، لالچی یا الجھے ہوئے لوگ موجود ہوں گے جو ان کے بہکاوے میں آ کر ون کوائن میں اپنی جمع پونجی جھونک دیں گے۔

ڈاکٹر روجا کو یہ بھی پتہ تھا کہ انفارمیشن کے اس دور میں جھوٹ اور سچ کو علیحدہ کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر روجا کو یہ بھی معلوم تھا کہ ون کوائن میں چھپے فراڈ سے عوام کو بچانے والے قانون ساز ادارے، پولیس، اور میڈیا کو یہ سمجھنے میں بہت دیر لگ جائے گی۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.