نیپال نے ایک نئے 100 روپے کے کرنسی نوٹ کا اعلان کرکے انڈیا کو ناراض کردیا ہے. جس میں اس خطے کو دکھایا گیا ہے جس پر اس کا جنوبی ایشیائی پڑوسی دعویٰ کرتا ہے۔
اس نوٹ کی وجہ سے وہ دیرینہ سرحدی تنازع دوبارہ چھڑ گیا ہے جس کے باعث حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب ہوئے تھے۔
لیپولیکھ، کالاپانی اور لمپیادھورا علاقوں پر مسابقتی دعوے 2020 میں اس وقت ایک تلخ تنازع کی شکل اختیار کر گئے جب انڈیا نے چین پر نظر رکھتے ہوئے. اپنی شمالی ریاست اتراکھنڈ کو سٹریٹجک لیپولیکھ پہاڑی درے سے جوڑنے کے لیے ایک سڑک بنائی۔
جب کھٹمنڈو نے ایک نیا نقشہ شائع کر کے جواب دیا، جس میں متنازع علاقوں کو نیپال کی سرحدوں کے اندر واقع دکھایا گیا تھا، تو نئی دہلی نے احتجاج کیا کہ نیپال کے دعوؤں کی ’مصنوعی توسیع‘ تاریخی حقائق یا شواہد پر مبنی نہیں اور اس لیے یہ قابل قبول نہیں ہے۔
نئے نقشے میں نیپال کی زمین میں 335. مربع کلومیٹر کا اضافہ کیا گیا ہے۔
نیپال، جو اپنے ہمسایوں کے برعکس کبھی بھی یورپی نوآبادیاتی حکمرانی میں نہیں رہا، لمپیادھورا، کالاپانی اور لیپولیکھ پر اپنے دعوؤں کی بنیاد برطانوی راج کے ساتھ 1816 کے سوگولی معاہدے کو قرار دیتا ہے۔
چین کے ساتھ جنگ
تاہم 1962 میں چین کے ساتھ جنگ کے بعد سے یہ علاقے انڈیا کے کنٹرول میں ہیں۔
نیپال کی وزیر اطلاعات و مواصلات ریکھا شرما نے کہا کہ نئے .کرنسی نوٹ کی چھپائی کا فیصلہ جمعرات کو وزیر اعظم پشپا کمال دہل کی صدارت میں ایک اجلاس میں کیا گیا۔
ریکھا شرما نے کہا کہ ’وزیر اعظم پشپا کمال دہل ’پرچنڈ‘ کی صدارت میں وزرا کی کونسل کے اجلاس میں نیپال کا نیا نقشہ چھاپنے کا فیصلہ کیا گیا. جس میں 100 نیپالی روپے مالیت کے بینک نوٹوں میں لیپولیکھ، لمپیادھورا اور کالاپانی کو شامل کیا گیا ہے۔‘
وزیر نے کہا کہ ’بینک نوٹ کے پیچھے چھپے پرانے نقشے کو تبدیل کرنے‘ کے لیے. ’100 نیپالی روپے کے بینک نوٹ کو دوبارہ ڈیزائن‘ کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
کابینہ کے فیصلے سے ملک کے مرکزی راسٹرا بینک کو آگاہ کیا جائے گا، جسے نیا نوٹ چھاپنے اور جاری کرنے میں ایک سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔
انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اس مسئلے کے حل کے لیے. جاری سفارتی مذاکرات کے باوجود کٹھمنڈو کی جانب سے اس ’یکطرفہ‘ اقدام پر تنقید کی۔
اس حالیہ پیش رفت کے متعلق پوچھنے. پرانڈین وزیر نے بتایا کہ ’ہمارا موقف بالکل واضح ہے۔ نیپال کے ساتھ ہم ایک طے شدہ پلیٹ فارم کے ذریعے اپنے سرحدی معاملات پر بات چیت کر رہے ہیں۔ اس دوران انہوں نے یکطرفہ طور پر اپنی طرف سے کچھ اقدامات کیے ہیں۔‘