رواں برس کے آغاز میں امریکی ریاست فلوریڈا میں رہنے والے ایک خاندان کے گھر سے خلائی کچرے آ ٹکرایا۔ اب یہ خاندان امریکی خلائی ایجنسی ناسا سے اپنے گھر کو پہنچنے والے نقصان سمیت اس واقعے کی وجہ سے ذہنی اذیت کے لیے ہرجانہ مانگ رہے ہیں۔
یہ واقعہ مارچ میں ہوا جب تقریباً 1.1 پاؤنڈ وزن کے دھاتی ٹکڑے نے نیپلز میں واقع ایلیہاندرو اوٹیروکے گھر کی چھت میں سوراخ کر دیا تھا۔
ناسا کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن میں نئی لیتھیم آئن بیٹریاں لگنے کے بعد اس نے تقریباً 5800 پاؤنڈ وزنی ہارڈ ویئر خلا میں پھینک دیا اور یہ ٹکڑا بھی اسی ہارڈوئیر کا حصہ تھا۔ اوٹیرو کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا زخمی ہوتے ہوتے بچا۔
نقصانات
’کرین فل سمر‘ نامی قانونی فرم کی جانب سے ایک پریس ریلیز میں نقصانات کی تفصیل بتائی گئی ہے جس کے مطابق اس خاندان کی غیر بیمہ شدہ املاک کو نقصان پہنچا ہے، ان کے کاروبار میں رکاوٹ آئی اور وہ جذباتی و ذہنی اذیت سے بھی گزرے ہیں۔
خاندان کے وکیل میکا گوین وردھی کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں خلائی ٹریفک میں اضافے کے باعث خلائی کچرا ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔
انھوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’میرے موکل اس واقعے کی وجہ سے اپنی زندگیوں میں آنے والی پریشانی اور اثرات کے لیے مناسب معاوضہ چاہتے ہیں۔‘
اوٹیرو نے سی بی ایس نیوز سے وابستہ ونک ٹی وی کو بتایا. کہ جب یہ ٹکڑا ان کے گھر سے ٹکرایا تو اس کے نتیجے میں ایک دھماکہ ہوا اور ایک زوردار آواز پیدا ہوئی۔
اوٹیرو نے بتایا کہ ’میں کانپ رہا تھا۔ میں بے یقینی کی کیفیت میں تھا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ میرے گھر پر اتنی طاقت کے ساتھ کسی چیز کے ٹکرانے اور اتنے زیادہ نقصان ہونے کے کیا امکانات ہیں۔‘
ٹکڑا
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ٹکڑا سٹینچیئن کا حصہ تھا. جسے کارگو پیلیٹ پر بیٹریاں لگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ناسا کا کہنا ہے کہ ’امید کی جا رہی تھی کہ 8 مارچ 2024 کو زمین کے ماحول میں داخل ہونے کے عمل کے دوران ہارڈ ویئر مکمل طور پر جل جائے گا۔ تاہم ہارڈ ویئر کا ایک ٹکڑا بچ گیا اور فلوریڈا میں ایک گھر کو اس سے نقصان پہنچا۔‘
ناسا کے مطابق انٹرنیشنل سپیس سٹیشن اس حوالے سے ’تفصیلی تحقیقات‘ کرے گا کہ یہ ٹکڑا جلنے سے آخر کیسے بچ گیا۔
ایجنسی کے پاس اوٹیرو کے ہرجانے کے دعوے کا جواب دینے کے لیے چھ ماہ کا وقت ہے۔
خلائی کچرا ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔ اپریل کے مہینے میں کیلیفورنیا میں آسمان پر نظر رکھنے. والوں نے چند پراسرار سنہری لکیروں کو خلا میں اڑتے ہوئے دیکھا۔
بعد ازاں امریکی حکام نے بتایا کہ زمین کے مدار میں دوبارہ داخل ہونے والے. چینی راکٹ کا جلنے والا ملبہ دراصل اس لائٹ شو یا سنہری لکیروں کی وجہ بنی تھی۔
فروری میں ’آبجیکٹ کے‘ نامی ایک چینی سیٹلائٹ فضا میں دوبارہ داخل ہونے کی کوشش کے دوران جل گیا تھا۔
گذشتہ برس مغربی آسٹریلیا کے ساحل پر بارنکل سے ڈھکا ہوا .ایک بڑا دھاتی گنبد ملا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک انڈین خلائی راکٹ کا حصہ تھا۔ اب اسے ناسا کے سکائی لیب. (جو 1979 میں آسٹریلیا میں گر کر تباہ ہو گیا تھا) کے ٹکڑوں کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
خلائی کچرے کا مسئلہ
انسان کے تیار کردہ خلائی راکٹوں کے ملبے کے کم از کم 130 ملین ٹکڑے زمین کے گرد مدار میں موجود ہیں، جن میں سے زیادہ تر سات کلو میٹر فی سیکنڈ سے زیادہ کی رفتار سے گھوم رہے ہیں۔ عام زبان میں ان کی رفتار کسی بندوق سے نکلی گولی سے آٹھ گنا زیادہ تیز ہے۔
اگرچہ ملبے کی یہ تعداد اپنے آپ میں حیران کن ہے. لیکن کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے. کہ یہ ایک محتاط تخمینہ ہے اور ملبہ کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
خلا میں بھیجی جانے والی زیادہ تر اشیا اس وقت تک وہیں رہتی ہیں. جب تک کہ وہ یا تو مدار سے باہر نہ ہو جائیں یا پھر دوبارہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہوئے جل نہ جائيں یا زمین سے دور کھنچ کر چلی جائیں اور مدار میں سینکڑوں سال تک چکر لگاتی رہیں۔
اس طرح کی زیادہ تر اشیا دراصل بہت چھوٹی ہیں یعنی ایک سینٹی میٹر سے بھی کم۔ ان میں راکٹوں پر لگے پینٹ کے پرخچوں سے لے. کر الیکٹرانکس کے چھوٹے ٹکڑے اور ’انسولیشن فوم‘ یا ایلومینیم کے ٹکڑے تک شامل ہیں۔
خلا میں موجود کچرے کے اتنے چھوٹے چھوٹے ٹکروں. سے بنے ملبے کو زمین سے نہیں دیکھا جا سکتا، یہاں تک کہ طاقتور دوربینوں سے بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ خلا میں موجود اس کچرے کو دیگر اشیاء سے ٹکراتے وقت کے شواہد تلاش کریں مگر یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔
ناسا کے پانچ خصوصی مشنز کے بار بار مدار میں جانے اور پھر زمین پر واپس آنے کے. بعد اس مسئلے کے دائرہ کار کا جائزہ لینے کا کام سنجیدگی سے شروع کیا گیا۔ ناسا نے سنہ 1981 کے بعد سے اب تک کل 135 شٹل مشن لانچ کیے ہیں۔
جو