ایک نئی تحقیق میں پتا چلا ہے کہ لندن ڈرائیونگ کے لیے دنیا کا سست ترین شہر ہے۔
ٹیکنالوجی کمپنی ٹام ٹام کے مطابق سنہ 2022 میں لندن کے مرکز میں 10 کلومیٹر سفر میں اوسطاً 36 منٹ 20 سیکنڈ لگتے ہیں۔
یہ سنہ 2021 کے اعداد و شمار سے تقریباً دو منٹ مزید سست ہے۔ اور گذشتہ برس 56 ممالک کے 389 شہروں۔ میں سے اسی فاصلے پر لگنے والا سب سے زیادہ وقت ہے۔
لندن کی سڑکوں کے منتظم حکومتی ادارے ٹرانسپورٹ فار لندن سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا گیا ہے۔
ٹام ٹام کے اینڈی مرچنٹ نے کہا کہ ریلوے کی۔ ہڑتال کے دوران لوگوں نے سڑک کے ذریعے زیادہ سفر کیا اس لیے ٹریفک جام میں اضافہ ہوا ہے۔
انڈیا کا شہر بینگلورو 29 منٹ اور 10 سیکنڈز کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔ جس کے بعد آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن نے 28 منٹ 30 سیکنڈ، اور جاپان کے شہر سپورو نے 27 منٹ 40 سیکنڈ۔ کے وقت کے ساتھ فہرست میں جگہ بنائی۔
ٹاپ 50 میں آنے والے برطانیہ کے دیگر شہروں میں مانچسٹر، لیورپول اور ایڈنبرا شامل ہیں۔
اس کے علاوہ جب پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں۔ الیکٹرک گاڑیوں کو چارج کرنے کے اخراجات اور ٹریفک جام میں ضائع ہونے والے ایندھن کا جائزہ لیا گیا تو پایا گیا کہ گذشتہ برس لندن ڈرائیونگ کے لیے ۔دنیا کا دوسرا مہنگا شہر تھا جبکہ پہلے درجے پر ہانگ کانگ رہا۔
برطانيہ کے ديگر شہر
ڈرائیونگ کے لیے مہنگے برطانوی شہروں میں برسٹل، برائٹن، مانچسٹر اور ایڈنبرا بھی شامل ہیں۔
ٹام ٹام نے یہ بھی پایا کہ گذشتہ برس الیکٹرک گاڑیاں چارج کرنے کی قیمت بھی لندن میں دنیا بھر کے مقابلے میں سب سے زیادہ تھی۔
لندن میں گذشتہ برس 16 ہزار کلومیٹر گاڑی چلانے کے لیے لوگوں نے 2055 پاؤنڈز خرچ کیے جبکہ پیرس میں یہ خرچہ 1969 پاؤنڈز۔ برسلز میں 1888 پاؤنڈز۔ برلن میں 1794 پاؤنڈز اور نیو یارک میں 1220 پاؤنڈز تھا۔
اینڈی مرچنٹ نے کہا کہ ’وسطی لندن میں سڑکوں کی ترتیب کی وجہ سے یہاں ٹریفک کے بغیر بھی سفر کا وقت دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
’اس کا مطلب یہ نہیں کہ لندن دنیا کا سب سے تنگ شہر ہے۔ مگر لندن میں ٹریفک کے بڑھتے رش اور 2022 میں سست ترین رفتار کے درمیان واضح تعلق موجود ہے۔‘
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’جہاں ہڑتال کی وجہ سے ٹریفک جام بڑھ رہے ہیں۔ تو وہیں ریئل ٹائم ڈیٹا کی مدد سے بہتر ٹریفک مینیجمنٹ کی جا سکتی ہے۔ جس کی وجہ سے ٹریفک کا بہاؤ جاری رکھنے اور شہر ۔کے انفراسٹرکچر کے مؤثر استعمال میں مدد مل سکتی ہے۔‘