لاہور کی ایک مقامی عدالت نے اپنی پہلی بیوی سے تحریری اجازت اور اس ضمن میں درکار قانونی کارروائی مکمل کیے بغیر دوسری شادی کرنے والے شخص کو سات ماہ قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سُنائی ہے۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ اگر مجرم جرمانے کی رقم ادا نہیں کرتا. تو اسے مزید ایک ماہ قید میں رہنا ہو گا۔
فیملی کورٹ کے جج عدنان لیاقت نے اس سزا پر عملدرآمد ایک ہفتے کے لیے خود ہی معطل کر دیا ہے تاکہ ملزم اگر چاہیں تو متعلقہ عدالت کے سامنے اس سزا کے خلاف اپیل دائر کر سکیں۔ عدالت کے مطابق چونکہ سزا ایک سال سے کم عرصے کی ہے اس وجہ سے ملزم کو اپیل کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔
اگر ملزم عدالت سے رجوع نہیں کرتے یا پھر ان کی اپیل بھی مسترد ہو جاتی ہے تو اس صورت میں انھیں جیل بھیج دیا جائے گا۔
عدالتی کارروائی میں کیا کچھ ہوا؟
اس معاملے کی ابتدا چار ستمبر 2021 کو اُس وقت ہوئی جب لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے اپنے شوہر کے خلاف مقامی عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا. کہ اُن کے شوہر نے اُن کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کر لی ہے۔
خاتون نے دعویٰ کیا کہ ناصرف دوسری شادی اُن کی مرضی کے خلاف کی گئی. بلکہ اُن کے شوہر نے اس سے قبل قانونی طریقہ کار بھی اختیار نہیں کیا جو متعلقہ یونین کونسل سے دوسری شادی کا اجازت نامہ حاصل کرنے سے متعلق ہے۔
خاتون نے عدالت میں دائر اپنی درخواست میں کہا کہ ان کے شوہر کا یہ اقدام خلاف قانون ہے چنانچہ عدالت قانون کے مطابق اپنا فیصلہ سُنائے۔
دوران سماعت شوہر نے عدالت کو بتایا کہ ان کی پہلی شادی درخواست گزار کے ساتھ 24 ستمبر 2011 کو ہوئی تھی مگر مسلسل کوششوں کے باوجود ان کی اہلیہ حاملہ نہیں ہو پا رہیں تھیں۔
اپنے دعوؤں کے ثبوت میں شوہر نے اپنی پہلی بیوی کی میڈیکل رپورٹس فراہم کیں اور کہا کہ انھوں نے تمام تر علاج کروائے اور خرچہ کیا مگر وہ والد نہ بن سکے چنانچہ انھوں نے دوسری شادی کا فیصلہ کیا۔
زبانی اجازت
شوہر نے مؤقف اختیار کیا کہ اگرچہ تحریری طور پر تو نہیں. مگر پہلی اہلیہ کے بھائی اور والد کی موجودگی میں انھوں نے اپنی اہلیہ سے زبانی اجازت لی تھی. جس کے بعد انھوں نے 22 مارچ 2021 کو دوسری شادی کر لی۔
شوہر کا دعویٰ تھا. کہ نہ تو انھوں نے دوسری بیوی سے پہلی شادی چھپائی اور نہ ہی پہلی بیوی سے اور یہ کہ انھوں نے اپنے دوسرے نکاح نامے میں بھی اپنے آپ کو شادی شدہ ظاہر کیا ہے۔
تاہم عدالتی کارروائی کے دوران پہلی اہلیہ نے شوہر کے ان دعوؤں کی تردید کی۔
یہ درخواست دائر ہونے کے لگ بھگ ساڑھے تین سال بعد رواں ہفتے عدالت نے خاتون کے حق میں اپنا فیصلہ سنایا ہے۔
اس کیس کے تفصیلی عدالتی فیصلے کے مطابق گذشتہ ساڑھے تین سال کے دوران ہونے والی سماعتوں میں شوہر نے پہلی بیوی کی جانب سے لگائے گئے. الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا. کہ انھوں نے دوسری شادی سے قبل پہلی بیوی سے زبانی اجازت لی تھی۔ تاہم ملزم نے اقرار کیا. کہ وہ دوسری شادی سے قبل اپنی متعلقہ یونین کونسل سے باقاعدہ اجازت نامہ حاصل نہیں کر سکا۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد لاہور کی فیملی کورٹ نے شوہر کو مسلم فیملی لا آرڈیننس 1961 کی دفعہ چھ کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگرچہ مسلمان شخص کو ایک ہی وقت میں چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے. مگر اس کے لیے کچھ قانونی تقاضے بھی پورا کرنے ہوتے ہیں۔
دوسری شادی سے متعلق پاکستان کا قانون کیا کہتا ہے؟
پاکستان میں نکاح، طلاق اور دیگر عائلی معاملات سے متعلق قوانین کو ’مسلم فیملی لا‘ کے تحت ڈیل کیا جاتا ہے۔ مسلم فیملی لا سنہ. 1961 میں آرڈیننس کی شکل میں نافذ ہوا تھا۔ شوہر کو اسی آرڈیننس کی دفعہ 6 کے تحت. سزا سنائی گئی ہے۔
آرڈیننس کی دفعہ 6 ایک سے زیادہ شادیوں سے متعلق ہے. اور اس کے مطابق پہلی شادی کی موجودگی. میں کوئی شخص دوسری شادی اس وقت تک نہیں کر سکتا. جب تک کہ وہ آربیٹریشن کونسل (یونین کونسل). سے اس ضمن میں تحریری اجازت نامہ نہ حاصل کر لے۔
اس ضمن میں یونین کونسل میں دی جانے والی درخواست کے ساتھ درخواست گزار کو فیس جمع کروانی ہوتی ہے، پہلی شادی کی موجودگی میں دوسری شادی کرنے. کی وجہ لکھنی ہوتی ہے. اور ساتھ ساتھ یہ بتانا ہوتا ہے. کہ نئی شادی کے لیے. پہلی بیوی یا بیویوں سے اجازت حاصل کی گئی ہے۔
یہ درخواست موصول ہونے کے بعد کونسل درخواست گزار مرد اور اس کی پہلی بیوی کو اپنا ایک، ایک نمائندہ مقرر کرنے کے احکامات دیتی ہے. اور معاملہ ثالثی کمیٹی کو بھیجا جاتا ہے۔ ثالثی کمیٹی نمائندوں کو سُن کر اگر. اس بات پر مطمئن ہو. کہ دوسری شادی کرنے کی معقول وجہ موجود ہے. تو دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کا مشروط یا غیرمشروط اجازت نامہ جاری کر دیا جاتا ہے۔
قانونی کارروائی
آرڈینس کی دفعہ 6 کے مطابق اگر اوپر بیان کی گئی قانونی کارروائی مکمل کیے بغیر کوئی شخص شادی کرتا ہے تو اس کو پہلی بیوی کو فوری طور پر معجل و غیرمعجل مہر فوری طور ادا کرنا ہوتا ہے. اور قانونی کارروائی کی جائے گی جس کی زیادہ سے زیادہ سزا ایک سال اور پانچ لاکھ تک جرمانہ ہو سکتی ہے۔
لاہور کی عدالت نے قرار دیا. کہ چونکہ شوہر دوسری شادی سے قبل یہ تمام تر قانونی کارروائی پوری نہیں کر سکا. اس لیے اسے سات ماہ قید اور جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے۔
خیال رہے کہ سنہ 2020 میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے حق مہر سے متعلق ایک درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا تھا کہ دوسری شادی سے قبل پہلی بیوی یا ثالثی کونسل کی اجازت لینا ضروری ہے. تاکہ معاشرے میں توازن قائم رکھا جا سکے۔
سپریم کورٹ نے اپنے. فیصلے میں مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کے سیکشن چھ کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا تھا. کہ ‘اس دفعہ کے تحت دوسری شادی کی ممانعت نہیں ہے۔‘
اس سے قبل سنہ 2013 میں اسلامی نظریاتی کونسل نے حکومت پاکستان کو قانون سے دوسری شادی سے متعلقہ پیشگی شرائط اور قانونی تقاضوں کو ختم کرنے کی تجویز دی تھی. اور کہا تھا. کہ اسلام میں چار شادیوں کی اجازت دی گئی ہے اور اگر پہلی بیوی راضی نہ بھی ہو. تو دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کرنا غیرشرعی نہیں ہے۔