جنوبی کوریا نے یکم جنوری 2024 سے ڈیجیٹل خانہ بدوشوں کے لیے ایک نئے ویزے کا اجرا شروع کیا ہے۔ دو سال کی مدت والے اس ویزے میں آپ باآسانی اپنی ریموٹ نوکری برقرار رکھ سکتے ہیں۔
جنوبی کوریا کبھی بھی ڈیجیٹل خانہ بدوشوں کے لیے سرِفہرست ملک نہیں رہا. تاہم اس کا ایک نیا ویزا گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کا اعلان 2023 کے اواخر میں کیا گیا اور یکم جنوری 2023 سے اس پر عملدرآمد شروع ہوچکا ہے۔
’ورکیشن ویزا‘ کے ذریعے ایک ملازم (اور ان کا خاندان) دو سال تک جنوبی کوریا میں رہ سکیں گے۔ اس سے قبل غیر ملکیوں کو محض 90 روز کا سیاحتی ویزا دیا جاتا تھا۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ امیدوار کسی غیر ملکی کمپنی کا ملازم ہو اور اس نے اسی صنعت میں کم از کم ایک سال تک کام کیا ہو تاہم اس کے لیے قریب 50 ہزار پاؤنڈز سالانہ تنخواہ اور 59 ہزار پاؤنڈز کی پرسنل ہیلتھ انشورنس بھی ضروری ہے۔
پیداوار
اس نئے ویزے کا مقصد نہ صرف معاشی پیداوار بڑھانا ہے بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جنوبی کوریا ملک میں سیاحتی سرگرمیوں میں اضافہ چاہتا ہے۔
بعض سیاحوں کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ اس بات سے بے خبر ہیں کہ جنوبی کوریا ریموٹ ورکرز کے لیے عمدہ ملک ہے۔
بلاگر ہیمر سوئی نے کہا کہ ’جنوبی کوریا میں جدت اور روایت کا امتزاج ہے اور یہ ڈیجیٹل خانہ بدوشوں کے لیے ثقافتی پناہ گاہ کے طور پر ابھر رہا ہے۔‘
’یہاں نہ صرف ریموٹ ورک کے لیے اچھی سہولیات ہیں بلکہ آپ تاریخ، ٹیکنالوجی اور مہمان نوازی سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔‘
مگر جنوبی کوریا میں ڈیجیٹل خانہ بدوشوں کے لیے کیا سہولیات ہیں اور اس ملک کے بارے میں کیا جاننا ضروری ہے، اس بارے میں ہم نے ماضی میں یہاں قیام کرنے والے سیاحوں سے بات کی ہے۔
جنوبی کوریا میں آپ کہاں عارضی رہائش اختیار کر سکتے ہیں؟
جنوبی کوریا میں ریموٹ ورکرز کے رہنے کے لیے کئی اچھے آپشنز ہیں، جیسے دارالحکومت سیول جہاں بڑی شہر کی تمام سہولیات میسر ہیں، ساحلی شہر بوسان یا کم خرچ اور پُرسکون جزیرہ جینودو۔
ٹریول بلاگر ہیدر مارکل کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ ڈیجیٹل خانہ بدوش ہیں یا ایسے مسافر ہیں جو سماجی روابط قائم کرنے کے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ شہری زندگی چاہتے ہیں تو سیول بہتر آپشن ہے۔ ’یہاں جدت اور تاریخ دونوں کے آثار ملتے ہیں۔ یہاں بہترین کورین سکن کیئر، کھانا اور چھوٹی بازار ہیں۔‘
جنوبی کوریا کی رہائشی ہیلی پارش کہتی ہیں کہ ’پورے شہر میں ہر 50 میٹر کے فیصلے پر آپ کو کافی شاپ ملتی ہے۔ کیفیز میں اچھا ماحول ہوتا ہے اور ان میں آپسی مقابلہ چلتا رہتا ہے۔ مارکیٹنگ کی خاطر کئی جگہوں پر فوٹو بوتھ بھی نصب ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’سیول کا بروکلن‘ کہلائے جانے والا علاقہ سنگزو ڈانگ مقبول جگہوں میں سے ایک ہے۔ اس صنعتی علاقے میں فیکٹریوں اور سٹورز کی بھرمار تھی جنھیں اب ریستورانوں اور کیفیز میں تبدیل کیا گیا ہے۔
پارش، جو سیول کے مختلف علاقوں میں رہ چکی ہیں، کہتی ہیں کہ مشرقی سیول میں زیادہ پُرکشش مقامات ہیں جہاں آپ بہتر سماجی زندگی گزار سکتے ہیں۔ ’جب میں مغرب میں رہتی تھی تو میں بار بار مشرقی علاقوں کی طرف کھچی چلی آتی تھی۔‘
’سیول میں ہر جگہ کام کے لیے مخصوص جگہ مختص ہوتی ہے. مگر لوگوں کو یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کس جگہ زیادہ لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔‘
ڈیجیٹل خانہ بدوش
جنوبی کوریا کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع شہر بوسان میں سیول سے الگ ماحول ہے۔ یہاں ایسے مواقع ہیں جن سے ساحل کو پسند کرنے والے ڈیجیٹل خانہ بدوش لطف اندوز ہوسکیں۔
پارش نے کہا کہ ’یہاں کام کے لیے بہت سی جگہیں ہیں۔ اکثر کورین کمپنیوں کے دفاتر اور ورک سپیس سیول اور بوسان دونوں میں واقع ہیں۔ گرم مہینوں میں یہاں کی ساحلی زندگی پُرلطف ہوتی ہے۔‘
جینودو جزیرہ بھی رموٹ ورکرز کے پسندیدہ مقامات میں سے ہے۔ یہ ملک کا سب سے بڑا جزیرہ ہے اور جنوبی کوریا کے اکثر رہائشی یہاں چھٹیاں منانے آتے ہیں۔ مارکل نے کہا کہ ’اس چھوٹی سی جگہ پر دیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ بطور آتش فشاں جزیرہ اس کی دلچسپ تاریخ ہے۔ آپ یہاں خواتین غوطہ خوروں کو دیکھ سکتے ہیں جس کے لیے یہ جزیرہ مشہور ہے۔‘
یہاں دو مرکزی شہر ہیں جہاں سب باآسانی دستیاب ہوتا ہے: جینودو اور سیوگویپو۔ خانہ بدوشوں کا کہنا ہے کہ ایسے کئی ریستوران ہیں جہاں آپ پُرسکون ماحول میں کام کر سکتے ہیں اور کام کے بعد آرام کی جگہیں بھی قائم ہیں مگر یہاں بڑے شہروں جیسی نائٹ لائف نہیں۔
جنوبی کوریا میں دیکھنے کو کیا کچھ ہے؟
ریموٹ ورکرز کا کہنا ہے کہ یہاں رہتے ہوئے آپ مختلف جگہوں پر گھوم پھر لیتے ہیں اور اسی دوران آپ کو کام کے لیے مخصوص جگہیں بھی مل جاتی ہیں۔ علاقے کے اعتبار سے یہ چھوٹا ملک ہے مگر یہاں سفر کرنا قدرے آسان ہے۔ آپ کی رہائش گاہ کہیں بھی ہو، آپ دن میں سیاحتی دورے کر سکتے ہیں۔
شمالی سیول میں واقع گیونگ بک گنگ پیلس سب سے مقبول مقامات میں سے ہے۔ اسے 1395 میں تعمیر کیا گیا اور یہ شاہی خاندان کی رہائش گاہ ہوا کرتی تھی۔ یہاں روایتی کورین کپڑے پہننے پر داخلہ مفت ہے اور یہ کپڑے سیول میں کرایے پر بھی مل جاتے ہیں۔ قریب ہی کئی ٹی ہاؤسز اور آرٹ گیلریز بھی واقع ہیں۔
پارش سیول میں ریور پارک کی تجویز دیتی ہیں، خاص کر بہار اور خزاں کے دوران۔ یہاں موسم گرما کے دوران آؤٹ ڈور سوئمنگ پول ہیں جبکہ سردیوں میں برف کی سلائیڈز۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہاں دریا کنارے کورین شہری سیول کے خوبصورت نظاروں کے سامنے فرائیڈ چکن اور بیئر نوش کرتے ہیں۔‘
سوائی جینودو کے حوالے سے ہلاسن نیشنل پارک جانے کی تجویز دیتی ہیں جہاں خوبصورت نظارے اور ہائیکنگ ٹریلز موجود ہیں۔ یہاں کوریا کا سب سے اونچا پہاڑ بھی واقع ہے جس کے نام کا مطلب ہے کہ ’ایسا پہاڑ جو اتنا بلند ہے کہ کائنات کو اپنی طرف کھینچ لے‘۔ پارک میں 1800 قسم کے پودے اور جانوروں کی 4000 انواع ہیں۔
جنوبی کوریا کے بارے میں کیا جاننا ضروری ہے؟
جنوبی کوریا دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جہاں ایک ہی نسل کے لوگ اکثریت میں آباد ہیں۔ بعض سیاحوں کو ابتدائی طور پر کورین الگ یا غیر دوستانہ لگتے ہیں جس کی وجہ ثقافتی غلط فہمیاں ہوسکتی ہیں۔
کورین شہری اکثر اوقات غیر ملکیوں کو پسند کرتے ہیں مگر وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ کسی اجنبی سے بات کرنا چاہیں۔
پارش کہتی ہیں کہ ’کورین شہریوں کو بعض اوقات ٹھنڈے مزاج کا کہا جاتا ہے۔ مغربی ثقافتوں سے جڑے لوگوں کو شاید وہ بدتمیز بھی لگیں۔ مگر وہ آپ کی مدد کرتے ہیں. اگر آپ ان سے راستے پوچھیں اور آہستہ آہستہ وہ آپ کو دوستانہ لگنے لگتے ہیں۔‘
نرم دل ہونا کیا ہے، اس حوالے سے مغربی روایات شاید یہاں لاگو نہ ہوسکیں کیونکہ ادھر شاید کوئی آپ کے لیے دروازہ کھول کر نہیں رکھتا، نہ ہی کوئی آپ کے لیے لفٹ کا بٹن دباتا ہے۔ ’کوریا کے لوگ تیز زندگی گزارتے ہیں۔ اگر کوئی شخص چلتے پھرتے آپ سے بات کرنا نہیں چاہتا تو وہ بدتمیز نہیں بلکہ اپنے کسی مشن پر ہے۔‘
سر جھکانے کو یہاں اچھا سمجھا جاتا ہے، خاص کر تھینک یو، ہیلو اور گڈ بائے کہنے کے دوران۔ جنوبی کوریا میں معمر افراد کو زیادہ عزت دی جاتی ہے۔
پارش نے کہا کہ سبوے اور قطاروں میں معمر افراد سب سے تیزی سے اپنی جگہ بناتے ہیں لیکن وہ دل کے اچھے ہوتے ہیں۔ ’وہ آپ کو کھانے کی پیشکش کرتے ہیں، آپ کے کھانے کے پیسے دیتے ہیں اور دوسروں کا بہت خیال بھی رکھتے ہیں۔‘