جینی لوکاس یونان میں اپنی 40 ویں سالگرہ کے سلسلے میں منعقد ہونے والی تقریب کی تصاویر دیکھ رہی ہیں. اور اِن تصویروں میں انھوں نے جو کپڑے اور زیورات پہن رکھے ہیں. ان میں سے بیشتر اب کھو چکے ہیں۔
انھوں نے یونان میں اپنی چھٹیاں شاندار طریقے سے منائیں تھیں. مگر یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی کیونکہ لندن واپسی کے سفر میں اُن کے سامان کے بیگ اُس وقت غائب ہو گئے جب انھوں نے اس بُک کروا کر پرواز میں چیک اِن کیا۔
وہ کہتی ہیں ’میرا وقت بہت اچھا گزرا، لیکن واپسی بہت اداسی کے ساتھ ہوئی۔ میں جب ان تصویروں کو دیکھتی تو کئی ایسی چیزیں (کپڑے، جیولری) نظر آتی ہیں جو بیگز میں موجود تھیں اور ان کے ساتھ ہی کھو گئی تھیں۔‘
لندن واپسی کی ان کی فلائیٹ کے لگ بھگ دو ماہ بعد ایئر لائن ’ایزی جیٹ‘ نے تصدیق کی کہ اُن کا سامان مستقل طور پر گم ہو گیا ہے. ایزی جیٹ کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں لوکاس کے بیگ کے گم ہونے پر بہت افسوس ہے. اور ہم اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے جھنجھلاہٹ کو سمجھ سکتے ہیں۔‘
جیسا کہ حالیہ مہینوں میں دنیا بھر کے اخبارات کی سرخیوں اور سوشل میڈیا پوسٹس سے اندازا لگایا جا سکتا ہے. کہ لوکاس کا معاملہ انوکھا نہیں ہے. کچھ مبصرین نے رواں برس گرمیوں کے سیزن کو ’گمشدہ سامان کا موسمِ گرما‘ قرار دیا ہے۔
عملے کی کمی کا سامنا
اس صورتحال کا ذمہ دار ہوائی اڈے کے حفاظتی عملے، جنھیں تمام چیک ان سامان کو سکین کرنا پڑتا ہے. اور گراؤنڈ ہینڈلنگ کمپنیاں، جو عام طور پر ان تمام سوٹ کیسز اور بیگز کو ہوائی جہازوں پر لانے اور پھر واپس چھوڑنے کا کام کرتی ہیں، کو ٹھہرایا گیا ہے۔
یاد رہے کہ حفاظتی عملے اور گراؤنڈ ہینڈلنگ کمپنیوں کے بہت سے ملازمین کو کورونا کی عالمی وبا کے دوران نوکریوں سے نکال دیا گیا تھا کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب بہت سے ممالک نے اپنی فضائی حدود بند کر رکھی تھیں اور ایک ملک سے دوسرے ملک فلائیٹس نہ ہونے کے برابر تھیں
مگر اب چونکہ فضائی سفر مکمل طور پر بحال ہو چکا ہے. تو ایئرپورٹ پر سامان کے حفاظتی اور اس کی ترسیل کے عملے کی سخت کمی کا سامنا ہے. اور ایئرپورٹس مسافروں میں اضافے کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹ نہیں پا رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایئرپورٹس میں موجود گوداموں میں سینکڑوں گمشدہ سوٹ کیسوں کی تصاویر سامنے آ رہی ہیں۔
سپین کی ایک انشورنس کمپنی میپفری کا کہنا ہے کہ رواں برس موسم گرما میں گمشدہ سامان کی شکایت کرنے والے مسافروں کی تعداد سنہ 2019 کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ تھی۔ یاد رہے. کہ سنہ 2019 وبائی مرض سے پہلے معمول کے سفر کا آخری سال تھا۔
اگرچہ اس سال ابھی تک تاخیر یا گمشدہ سامان کے حجم کے بارے میں کوئی عالمی اندازہ سامنے نہیں آیا لیکن سنہ 2019 کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مسئلہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔
ٹيک کمپنیياں
بیگ کے انتظام سے متعلق سافٹ ویئر فراہم کرنے والی کمپنی سیٹا کے مطابق اُس سال ایک کروڑ 90 لاکھ بیگز اور سوٹ کیسز تاخیر سے ملے اور تیرہ لاکھ ایسے تھے جو کبھی ملے ہی نہیں۔
اس کے علاوہ خراب یا چوری ہونے والے سامان کو شامل کریں. تو ہر ایک ہزار مسافروں کے 5.6 آئٹمز کو ’بُرے طریقے سے لے جایا گیا۔‘
اپنے سامان میں موجود چیزوں پر نظر رکھنے کے لیے مسافروں کی بڑھتی ہوئی تعداد ٹیکنالوجی کی طرف مائل ہو رہی ہے. خاص طور پر، وہ جی پی ایس ٹریکرز کو اپنے سامان کے ساتھ منسلک کر رہے ہیں جن میں سے ایک ایپل کا ایئر ٹیگ ہے۔
ایپل ایئر ٹیگ کی مدد سے آپ اپنے سمارٹ فون یا کمپیوٹر کے ذریعے یہ دیکھ سکتے ہیں. کہ آپ کا گمشدہ سوٹ کیس دنیا میں کہاں ہے۔ گذشتہ ماہ ایک شخص. جو شادی کے لیے کیلیفورنیا سے سکاٹ لینڈ گیا تھا، اس نے اپنے سامان کو ٹورنٹو، کینیڈا اور پھر ڈیٹرائٹ، امریکہ جاتے ہوئے دیکھا۔
لوکاس کہتی ہیں کہ انھوں نے پہلے جی پی ایس ٹیگ استعمال نہیں کیے لیکن آئندہ وہ ضرور ایسا کریں گی۔ ’میں اپنے سامان کو دوبارہ گم ہونے سے روکنے کے لیے کچھ بھی کروں گی۔‘
اگرچہ اس طرح کے ٹیگ کرنے والے آلات. مسافر کو ذہنی سکون دے سکتے ہیں. ٹریول انڈسٹری کے ماہر ایرک لیوپولڈ کا کہنا ہے کہ وہ بنیادی مسئلے کا حل نہیں ہیں. وہ مسائل ختم کرنا جن کی وجہ سے سامان اس پرواز تک نہیں جا پاتا جس پر ان کا مالک سوار ہوتا ہے۔
ايپل کی آيئر ٹيگ
ایئر ٹریول کنسلٹنسی تھری ڈاٹ کے بانی لیوپولڈ کہتے ہیں. کہ ’بیگوں کا سراغ لگانا اس وقت مددگار ثابت ہوتا ہے. جب 99 فیصد وقت پر پہنچ جاتے ہیں اور ایک فیصد کو غلط طریقے سے ہینڈل کیا جاتا ہے. لیکن جب ہزاروں بیگ لندن یا کسی اور جگہ پھنس جاتے ہیں، تو ٹیگز ان بیگز کے ڈھیر کو منزل پر پہنچانے میں مددگار نہیں ہوتے۔
سی ٹرو SeeTrue ایک ایسی کمپنی ہے جو ہوائی اڈوں اور فضائی کمپنیوں کو سامان لے جانے میں مدد کرنے کے لیے پُرامید ہے۔ اسرائیلی فرم ایسا سافٹ ویئر بناتی ہے. جو چیک اِن لگیج پر سکیورٹی سکین کو انسانی سکیورٹی کے عملے سے کہیں زیادہ تیزی سے کر سکتی ہے۔
چیف ایگزیکٹیو اساف فرینکل کہتے ہیں. کہ ’سی ٹرو بیگز میں ممنوعہ اشیا کو دریافت کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت اور کمپیوٹر وژن الگوردم کا استعمال کرتا ہے. یہ موجودہ ایکس رے. اور سی ٹی سکینرز سے جڑ کر زیادہ تر انسانی آنکھوں سے زیادہ تیز اور درست طریقے سے پتہ لگاتا ہے۔ یہ ہمیشہ کام کرتا رہتا ہے. اور تھکتا بھی نہیں اور نہ اس کا دھیان بٹتا ہے۔‘
’اس کے نتیجے میں سامان جہازوں میں بروقت پہنچتا ہے اور کچھ بھی پیچھی نہیں چھوٹتا۔‘
طريقے کار ميں تبديلی کا مطالبہ
برطانیہ کی ٹیکنالوجی فرم ائیر پورٹر کے پاس اس مسئلے سے نمٹنے کا حل یہ ہے. کہ مسافروں کو پرواز سے پہلے اپنے سامان کی جانچ پڑتال .کے لیے ہوائی اڈے پر قطار میں کھڑے ہونے کے طریقے کو بدلا جائے۔
اس کے بجائے مسافر اس کی ایپ اور ویب سائٹ کا استعمال کر کے اپنا سامان گھروں سے لے جانے کا بندوبست کر سکیں۔
فی الحال یہ سہولت لندن اور جنیوا کے درمیان برٹش ایئرویز .اور سوئس انٹرنیشنل ایئر لائنز کی پروازوں کے لیے دستیاب ہے. ایئرپورٹ کا ایک کارکن مسافر کا سوٹ کیس گھر. سے اٹھائے گا. جس کے بعد یہ سامان روانگی کے لیے بنے لاؤنج میں جانے کی بجائے ٹرمینل بلڈنگ میں ڈیپارچر والے. حصے میں لے جائے گا۔
اسی طرح ایئر پورٹر کے ٹرانسپورٹیشن پارٹنرز .میں سے ایک سوٹ کیس لے کر اسے مسافر کے گھر یا منزل کے پتے پہنچا دے گا۔
سامان کے ایک بیگ کی فیس لگ بھگ چالیس پاؤنڈ سے شروع ہوتی ہے، ایک طرح سے، اگر آپ کو اس بات پر اعتراض نہیں ہے. کہ آپ کا سوٹ کیس آپ کی روانگی سے ایک دن پہلے اٹھا. لیا جائے لیکن قیمتیں اس سے دگنی سے بھی زیادہ ہو سکتی ہیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا سامان دن میں کسی خاص وقت تک جمع ہو جائے۔ جتنا آپ. ہوائی اڈے سے دور ہوتے جائیں گی لاگت بھی بڑھتی جائے گی۔
اگرچہ بیگ اور مسافر ایک ہی ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہیں. لیکن ظاہر ہے کہ اس کا مطلب ہوائی اڈے تک جانے کے لیے اضافی کار یا وین ہو گی۔
سامان کھونا ايک بڑا مسئلہ
ایئر پورٹر کے چیف ایگزیکٹیو رینڈل ڈاربی نے 2013 میں یہ فرم قائم کی، ان کا کہنا ہے کہ وہ اس قدر مایوس تھے کہ سامان اسی طرح سفر کر رہا تھا. جس طرح تقریباً ایک .صدی پہلے سے کمرشل ہوا بازی میں ہو رہا ہے۔
ان کا ارادہ ہے کہ دنیا بھر میں اس سروس کو بڑھایا جائے اور انھیں امید ہے کہ یہ صرف کاروباری مسافروں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ چھٹیاں منانے والے ہر قسم کے مسافروں کے لیے فائدہ مند سروس بن جائے گی۔
پھر بھی اس طرح کے تکنیکی حل کے باوجود، مسافر یہ بھی چاہتے ہیں. کہ ایئر لائنز مزید کسٹمر کیئر ورکرز کو ملازمت دیں۔
فرانسیسی شہر ٹولوز میں رہنے والے برطانوی ایکسپیٹ بل ڈوڈی بھی ایسے ہی ایک شخص ہیں. جب جرمن ایئرلائن نے فرینکفرٹ کے راستے نیویارک جاتے وقت ان کے خاندان کے چار سوٹ کیس تقریباً ایک ماہ تک گم کر دیے گئے۔
میں نے ائیر لائن کو .لگاتار فون کیے لیکن زیادہ تر نمبر بند تھے۔ وہ کہتے ہیں۔ ’لوفتھانزا ایئر لائن نے اسے تمام غلط وجوہات کی بنا پر یادگار بنا دیا۔‘
مسافروں کے ليۓ مشکلات
ڈوڈی کہتے ہیں ’نیتجہ یہ نکلا کہ ہم ہوٹل کے سنک میں اپنے انڈرویئر کو دھو رہے تھے.‘ اس کے بعد سے وہ سامان کی ہر شے پر جی پی ایس ٹریکر لگا کر کام کے لیے آسٹریلیا گئے ہیں۔
لوفتھانزا ائیر لائن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’ہم گمشدہ سامان کے مخصوص کیسز پر تحقیق اور تبصرہ نہیں کر سکتے۔‘
ادھر لندن میں لوکاس اب معاوضہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ’میں نے اپنا سارا سامان کھو دیا ہے. ایسے زیوارت گم ہوئے جن کی کوئی تلافی نہیں ہو سکتی. میں نے ڈیڑھ ہزار پاؤنڈ اور .دو ہزار پاؤنڈ .کی مالیت کا سامان کھو دیا ہے. ایزی جیٹ رسیدیں مانگ رہا ہے، لیکن میرے پاس ہر چیز کی رسیدیں نہیں ہیں۔‘