بلوچستان میں شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف سیکورٹی فورسز کا بڑا آپریشن جاری ہے۔ مستونگ اور ملحقہ علاقوں میں فائرنگ کے تبادلے میں داعش خراسان کے متعدد اہم کمانڈروں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے قریب۔ اسپلنجی اور کابو کےعلاقے میں جاریعسکری آپریشن۔ میں دائش کے پانچ اہم کمانڈروں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ جب کہ ساتھ دیگر اہم ارکان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس آپریشن میں جہادیوں کے ساتھ جھڑپوں میں تین پاکستانی سکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے۔
پاکستانی فوجی بیان کے مطابق ہلاک شدگان میں داعش کے تین ایسے سرغنہ کمانڈر بھی شامل ہیں جو کہ افغانستان کے صوبہ کنڑ سے حال ہی میں بلوچستان منتقل ہوئے تھے۔
اطلاعات کے مطابق داعش کے روپوش عسکریت پسندوں کی گرفتاری کے لیے سیکیورٹی فورسز نے اب بھی کئی شورش زدہ علاقوں کا گھیراؤ کر رکھا ہے ۔ پہاڑی علاقوں میں ہونے والے اس خصوصی آپریشن میں ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔
شعیہ زائرین کے قافلوں پرحملوں
ایک سینیئر انٹیلی جنس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہلاک عسکریت پسند شعیہ زائرین کے قافلوں پرحملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ” یہ خصوصی آپریشن انٹیلی جنس اداروں کی نگرانی میں کیا جا رہا ہے۔ جس مقام پر داعش کے عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔ وہ ایک ایسا کمپاونڈ ہےجوکہ مقامی آبادی کے اندر قائم کیا گیا تھا۔ ہلاک عسکریت پسندوں کے ٹھکانے سے کئی اہم دستاویزات بھی برآمد ہوئی ہیں۔ ان دستاویزات کی روشنی میں دیگر علاقوں میں بھی آپریشن کیا جا رہا ہے ۔‘‘
انٹیلی جنس افسر کا کہنا تھا کہ شدت پسند تنظیم داعش بلوچستان میں اثرو رسوخ قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے مذید کہا، ”پاک افغان سرحدی علاقوں کی سیکورٹی میں غیرمعمولی اضافہ کیا گیا ہے۔ افغانستان سے شدت پسندوں کے پاکستان داخلے کو روکنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ افغانستان کے جن علاقوں میں افغان طالبان کا اثرو رسوخ کم ہے وہاں داعش اور دیگر عسکریت پسند تنظیمیں فعال ہوتی جا رہی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران داعش کئی بار بلوچستان میں اپنے پاؤں جمانے کی کوشش کرچکی ہے۔ تاہم شدت پسند اپنی حکمت عملی میں ناکام رہے ہیں۔‘‘
بلوچستان کے محکمہ داخلہ کے ایک سینئر اہلکار نبیل احمد کہتے ہیں کہ افغانستان سے متصل بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں پیدا ہونے والی شورش دہشت گردی کی اس نئی لہر کا حصہ ہے۔