پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مصباح الحق نے ایک بھرپور کریئر گزارا ہے۔ وہ ایک ایسے کرکٹر ہیں جن کے پاس یادوں کا بڑا ذخیرہ ہے۔
مصباح الحق نے 28 مئی 1974 کو پنجاب کے شہر میانوالی کے ایک ایسے گھر میں آنکھ کھولی جہاں تعلیم کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کرکٹ کھیلنے کے باوجود کبھی بھی اپنی تعلیم کو ثانوی حیثیت نہیں دی اور وہ پاکستان کے چند پڑھے لکھے کرکٹرز میں شمار کیے جاتے ہیں۔
ذہین لیکن شرارتی بچہ
مصباح الحق بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’بچپن ہر کسی کا شرارتی ہوتا ہے۔ میں بھی ایک شرارتی بچہ تھا۔ چونکہ میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں اور مجھ سے بڑی دو بہنیں ہیں لہذا سکول اور گھر میں خوب شرارتیں کیا کرتا تھا، لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ جتنی بھی شرارتیں تھیں وہ میں نے اپنی کم عمری میں ہی کرلی تھیں کیونکہ پھر زندگی جس طرح آگے چلی کہ یہ سفر غیرمعمولی سنجیدگی میں تبدیل ہو گیا۔‘
مصباح الحق کہتے ہیں ’میں جب نویں جماعت میں تھا اس وقت میرے والد کی وفات ہو گئی۔ زندگی آپ کو بڑی چیزیں سکھاتی ہے۔ بچپن میں کھیلنے کا بہت زیادہ شوق تھا۔ صرف کرکٹ ہی نہیں بلکہ دوسرے کھیل مثلاً ہاکی، فٹبال، بیڈمنٹن بھی خوب کھیلے۔‘
مصباح الحق بتاتے ہیں ’میں نے ایف ایس سی میانوالی سے کی جبکہ بی ایس سی فیصل آباد اور ماسٹرز لاہور سے کیا۔ میں کبھی بھی بہت زیادہ پڑھنے والا ( پڑھاُ کو) نہیں تھا لیکن ہمیشہ اچھے نمبروں سے پاس ہوا کرتا تھا۔ چونکہ میری والدہ اور والد دونوں ٹیچر تھے لہذا وہ میری پڑھائی پر بہت زیادہ توجہ دیتے تھے۔‘
’خاص طور پر والدہ مجھے خود پڑھاتی تھیں جس کی وجہ سے میری تعلیم کی بنیاد بہت مضبوط ہو گئی تھی۔ وہ میرے کھیلنے کی بھی حوصلہ افزائی کرتی تھیں لیکن انھوں نے مجھے کہہ دیا تھا کہ کرکٹ کھیلو لیکن اپنی تعلیم کو ضرور مکمل کرو۔ تمہارے پاس ڈگری ہونی چاہیے اسی لیے میں نے کرکٹ کھیلنے کے ساتھ ساتھ کبھی بھی اپنی تعلیم کے معاملے میں سمجھوتہ نہیں کیا۔‘
مصباح الحق بتاتے ہیں کہ ’میں 1995 میں لاہور آیا تو اس وقت میری پوری توجہ ایم بی اے پر تھی اس دوران میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ تم ایک آدھ میچ کھیل لیا کرو تاکہ تمہاری فٹنس رہے۔ اس وقت تک میں صرف شوقیہ کرکٹ کھیلتا تھا لیکن پھر میں نے گریڈ ٹو کرکٹ کھیلنی شروع کی اور پڑھائی بھی ساتھ ساتھ جاری رہی۔ جب میں نے ایم بی اے مکمل کر لیا تو اس وقت میرے سامنے مشکل مرحلہ تھا کہ میں کرکٹ کو اپناؤں یا گھر کے معاملات دیکھتے ہوئے ملازمت اختیار کروں۔‘
’مجھے ملازمت بھی مل گئی تھی اس دوران قائداعظم ٹرافی شروع ہونے والی تھی۔ میں نے سوچا کہ دو چار میچ کھیل لوں اگر پرفارمنس اچھی ہوگئی تو کرکٹ جاری رکھوں گا ورنہ ملازمت جوائن کر لوں گا۔ خوش قسمتی سے میں نے ابتدائی دو میچوں میں اچھا سکور کر لیا جس کی وجہ سے مجھے نیوزی لینڈ کے دورے کے لیے پاکستانی ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔‘
’یوں میں نے ملازمت کا ارادہ ترک کر دیا۔ اس زمانے میں مجھے انگلینڈ میں لیگ کرکٹ کھیلنے کے کنٹریکٹ بھی مل رہے تھے۔ مجھے پیسوں کی بھی ضرورت تھی لیکن میں انگلینڈ نہیں گیا۔ میں یہیں ڈومیسٹک کرکٹ کھیل کر پاکستانی ٹیم میں واپس آنا چاہتا تھا۔‘
’فوج میں جانا چاہتا تھا‘
مصباح الحق کے علاقے میانوالی کے کافی لوگ فوج سے وابستہ ہیں۔ مصباح الحق کہتے ہیں ’میرے اپنے خاندان میں بھی ایک بڑی تعداد فوج میں ہے۔ انھیں دیکھ کر میں بھی فوج میں جانے کا خواہشمند تھا بلکہ میں نے اس کی کوشش بھی کی تھی لیکن میری سلیکشن نہیں ہو سکی تھی۔ یقیناً اللہ نے میرے لیے مستقبل کرکٹ میں لکھ رکھی تھی۔‘
’سیاست میں آنا میرے بس میں نہیں‘
مصباح الحق سیاست میں آنے کے بارے میں سوال کا جواب بھرپور قہقہہ لگاتے ہوئے نفی میں دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’ہر شخص کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے۔ میرا وہ مزاج ہی نہیں جو سیاست کے لیے درکار ہوتا ہے۔ میں کبھی اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔‘
بیٹا بھی کرکٹر بنے گا؟
مصباح الحق کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ بیٹا فہم الحق بھی اپنے والد کی طرح کرکٹ کا شوقین ہے۔
مصباح الحق کہتے ہیں ’میں نے کوشش کی ہے کہ اپنے بیٹے کو وہ چیزیں دے سکوں جن کے نہ ہونے کی وجہ سے مجھے اپنے کریئر میں مشکلات رہی تھیں کیونکہ میرا کریئر تاخیر سے شروع ہوا تھا لیکن میرا بیٹا انڈر 13 سے کرکٹ کھیل رہا ہے۔ وہ اپنے ایج گروپ سے کھیلتا ہوا اوپر آ رہا ہے۔‘
’میں نے اس کے کھیل اور تعلیم دونوں میں توازن رکھنے کی کوشش کی ہے جو کہ پاکستان میں آسان نہیں ہے کیونکہ بدقسمتی سے پاکستان میں بچوں کی تعلیم اور کرکٹ میں اس طرح توازن نہیں رکھا جاتا کہ ان کی تعلیم متاثر نہ ہو اسی لیے ہمارے بیشتر کرکٹرز جو انٹرنیشنل کرکٹ کھیل رہے ہوتے ان کی ہایئر ایجوکیشن ادھوری رہ جاتی ہے۔ ابھی ہمارے یہاں انڈر 19 کرکٹ انھی دنوں میں رکھی گئی جب بچوں کے میٹرک اور او لیول کے امتحانات ہو رہے تھے۔‘
ڈریسنگ روم کے ’جگت باز‘
مصباح الحق کو اپنے کریئر میں متعدد ایسے کرکٹرز کا سامنا رہا ہے جنھوں نے اپنےحسِ مزاح اور دلچسپ فقرے بازی سے ماحول کو خوشگوار بنائے رکھا۔
مصباح الحق کہتے ہیں ’کرکٹ جیسے سخت کھیل میں آپ کو ہمیشہ ایسے کرکٹرز کی ضرورت رہتی ہے جو ٹینشن کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہو سکیں۔ میں جب پہلی بار پاکستانی ٹیم میں آیا تو اس وقت ڈریسنگ روم میں وسیم اکرم، انضمام الحق اور سعیدانور کے دلچسپ فقرے ماحول کو یکسر تبدیل کر دیتے تھے۔
سعید انور کی حسِ مزاح کمال کی تھی۔ جب یہ سینیئر چلے گئے تو ان کی جگہ شعیب ملک نے لے لی۔ سعید اجمل کو کون بھول سکتا ہے جن کی فیصل آباد والی روایتی دلچسپ فقرے بازی ڈریسنگ روم میں قہقہے بکھیر دیتی تھی۔‘
’ان کے علاوہ فاسٹ بولر عمران خان سینیئر بھی کمال کے کیریکٹر تھے۔ جب ہم ٹیسٹ میچ کا آغاز کرتے تو دعا کے بعد عمران خان سینیئر سے کہتے تھے کہ کوئی نہ کوئی دلچسپ بات سناؤ ۔وہ جب تک ٹیم میں رہے ہم سب نے بہت لطف اٹھایا۔‘
کریئر کے بہترین لمحات
مصباح الحق کہتے ہیں ’اپنے کریئر میں کچھ فتوحات اور سنگ میل ایسے ہیں جن پر فخر محسوس کرتا ہوں۔ 2016 کا سال میرے لیے بہت یادگار رہا تھا۔ اس سال پاکستان کا ٹیسٹ کرکٹ کی عالمی رینکنگ میں پہلے نمبر پر پہنچنا بہت بڑی بات تھی۔ میں پاکستان کا پہلا کرکٹر بنا تھا جسے آئی سی سی نے اسپرٹ آف دی کرکٹ کے ایوارڈ سے نوازا تھا۔‘
مصباح الحق 2016 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کے انگلینڈ کے دورے کو اپنے کریئر کا بہترین لمحہ قرار دیتے ہیں۔
’2010 میں پاکستانی ٹیم کو لارڈز ٹیسٹ میں ہی سپاٹ فکسنگ سکینڈل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 2016 میں اسی لارڈز کے تاریخی میدان میں میرا سنچری بنانا اور پاکستان کا ٹیسٹ جیتنا میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ اوول ٹیسٹ جیت کر ہم نے سیریز برابر کی تھی اور وزڈن کے پانچ بہترین کرکٹرز میں مجھے اور یونس خان کو شامل کیا گیا تھا۔‘
مصباح الحق کا کہنا ہے ’2013 میں جنوبی افریقہ کو اسی کی سرزمین پر ون ڈے سیریز میں ہرانے والی پہلی ایشیائی ٹیم بننا اور 2017 میں ویسٹ انڈیز کو اسی کی سرزمین پر پہلی بار ٹیسٹ سیریز میں شکست دے کر اپنے کریئر کا اختتام کرنا خاص کر جس انداز سے آخری ٹیسٹ کا اختتام ہوا وہ کوئی بھی فراموش نہیں کر سکتا۔‘
مصباح الحق 2007 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل کی شکست یاد کر کے افسردہ ہو جاتے ہیں جب جیت کے قریب آ کر وہ اس سے دور ہوئے تھے تاہم وہ دو سال بعد ہی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کا حصہ ہونے پر خوش ہیں کیونکہ اس جیت نے اُن کے دکھ کو بڑی حد تک کم کر دیا تھا۔
تیز ترین سنچری کا عالمی ریکارڈ برابر
مصباح الحق نے نومبر 2014 میں آسٹریلیا کے خلاف ابوظہبی ٹیسٹ میں صرف 56 گیندوں پر سنچری مکمل کر کے ٹیسٹ کرکٹ میں گیندوں کے اعتبار سے تیز ترین سنچری کا سرویوین رچرڈز کا عالمی ریکارڈ برابر کر دیا تھا تاہم فروری 2016 میں یہ ریکارڈ نیوزی لینڈ کے برینڈن مک کلم نے 54 گیندوں پر قائم کر دیا تھا۔
مصباح الحق کہتے ہیں ’جب انھوں نے 21 گیندوں پر نصف سنچری مکمل کر کے ژاک کیلس کا ریکارڈ توڑا تو وہ سٹیڈیم کی سکرین پر آ گیا تھا لیکن اس وقت انھیں نہیں پتہ تھا کہ تیز ترین سنچری کا ریکارڈ کیا ہے؟ یہ بات انھیں اس وقت معلوم ہوئی جب وہ 80 رنز پر کھیل رہے تھے کہ ڈریسنگ روم سے انھیں پیغام آیا کہ سرویوین رچرڈز کا ریکارڈ توڑنے کے لیے آپ کے پاس دس گیندیں رہتی ہیں۔‘
’جب یہ ریکارڈ بنا تو میں خود کو خوش قسمت کرکٹر محسوس کر رہا تھا۔ ویوین رچرڈز کے ساتھ میرا نام آنا اعزاز کی بات تھی حالانکہ کوئی بھی بیٹسمین ان کی برابری نہیں کر سکتا۔‘
مصباح الحق کا کہنا ہے ’مجھے اس بات کا قطعاً افسوس نہیں کہ یہ ریکارڈ زیادہ عرصے قائم نہ رہ سکا۔ کرکٹ اسی کا نام ہے جس میں ریکارڈ بنتے ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں۔‘