عید الاضحیٰ: قربانی کے جانوروں کی خریداری میں ’دھوکے‘ سے کیسے بچا جائے

10
1

’میں نے عید کے دن سے پہلے رات کے وقت راولپنڈی سے ایک بکرا خریدا۔ اگلے دن قربانی کے بعد پتہ چلا کہ وہ تو بیمار تھا۔‘

فہیم کا یہ پہلا تجربہ تھا گزشتہ سال کا ہے. جو ان کے لیے کافی تکلیف دہ تھا۔ اس قسم کا دھوکہ کھانے والے وہ. واحد شخص نہیں ہیں۔

جانور

راولپنڈی کے ہی رہائشی عادل منیر نے بھی اپنا ایک تلخ تجربہ بتایا۔ عادل منیر قربانی کے لیے جانور خریدنے مویشی منڈی جا رہے تھے. جب ان کے پڑوسی شمس الدین نے ان سے درخواست کی. کہ وہ ان کے لیے بھی جانور خرید لائیں۔

ان کے مطابق ’منڈی میں انھوں نے ایک صحت مند جانور کا انتخاب کیا. اور بیوپاری سے قیمت بھی کم کروانے میں کامیاب ہو گئے۔‘ وہ بتاتے ہیں. کہ اس جانور کو دیکھ ان کے پڑوسی کافی خوش ہوئے۔

لیکن یہ خوشی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہی۔ ان کے مطابق جب اگلے. دن وہ اپنے پڑوسی کے گھر اس ’ویہڑے‘ کو دیکھنے گئے تو ایک کمزور جانور کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔

انھوں نے اپنے پڑوسی سے پہلا سوال ہی یہ کیا. کہ ’جو جانور میں لے کر آیا تھا وہ کہاں ہے؟ ان کے پڑوسی نے جواب دیا کہ ’یہ وہی جانور ہے۔‘

سینگ اور دانت

عادل منیر کے مطابق صرف ایک ہی رات میں اس جانور کا وزن کم ہو گیا۔ ان کا خیال ہے کہ ان سے دھوکہ ہوا اور ’اس جانور کا وزن کسی مصنوعی طریقے سے زیادہ کیا گیا تھا۔‘

فہیم اور عادل کے ان دعووں کی تصدیق کرنا تو اب ناممکن ہے. تاہم یہ سوال اہم ہے. ایک صحت مند اور ہر طرح کے عیب سے پاک مویشی خریدنے کے لیے. کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں اور دھوکہ دہی سے کیسے. بچا جا سکتا ہے؟

وہ بھی ایسے بڑے شہروں میں جہاں عید قربان سے قبل قائم کی جانے والی عارضی منڈیوں میں مختلف بیوپاری دورپار سے مویشی لے کر آتے ہیں۔ ایک سادہ طریقہ تو یہ ہے. کہ کسی جانے پہچانے بیوپاری سے ہی جانور خریدا جائے یا پھر کسی ایسے ماہر کو خریداری کے وقت ساتھ رکھا جائے. جو مویشیوں کے بارے میں علم رکھتا ہو۔

لیکن وہ افراد کیا کریں جن کے لیے. یہ دونوں ہی ممکن نہیں؟ یا پھر ایسے افراد جو پہلی بار قربانی کے لیے. مویشی کی خریداری کرنے جا رہے ہیں؟

اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہم نے ویٹنری ڈاکٹر، جانوروں کے بیوپاری سے رابطہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ کیا عام سے نکات ہیں جن کا جانور خریدتے ہوئے خیال رکھنا چاہیے۔

’جانور کو چلا کر دیکھیں‘

ویٹرنری ڈاکٹر محمد جنید کا کہنا ہے. کہ ’خریداری دن میں کریں اور سب سے پہلے جانور کے کھڑے ہونے کے انداز کو دیکھنا چاہیے کہ اس کے پاؤں زیادہ پھیلے ہوئے تو نہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس کے بعد خریدار کو چاہیے کہ جانور کو چلا کر دیکھیں اور غور کرے کہ کہیں اسے کوئی چوٹ تو نہیں لگی ہوئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جانور کو چلانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جانور کا رویہ دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ چست ہے یا سست۔ سست جانور خریدنے سے گریز کرنا چاہیے۔‘

’اس کے علاوہ دیکھیں کہ ناک یا کان سے کسی قسم کا مواد تو نہیں بہہ رہا۔ جانور کی جلد پر بھی غور کرنا چاہیے تاکہ کوئی غیر معمولی چیز یا زخم ہو تو نظر آ جائے۔‘

’اس کے بعد منھ دیکھیں کہ اس میں چھالے تو نہیں۔ پھر اندر سے رنگ دیکھیں، بہت زیادہ لال یا پیلا رنگ ہو تو یہ کسی مسئلے کی نشانی ہو سکتی ہے۔‘

ان کے مطابق جانور کو گھر لے جانےکے بعد بھی مناسب خوراک کا خیال رکھنا چاہیے اور ’بہت زیادہ کھلانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیوں کہ اس کی وجہ سے جانور کو بدہضمی ہو سکتی ہے۔‘

’دانت غور سے دیکھیں‘

بکرا

مشتاق احمد تقریبا 15 سال سے مویشیوں کی خریداری کر رہے ہیں اور انھیں اپنے علاقے میں ایسا ماہر مانا جاتا ہے جن سے کسی بھی جانور کی خریداری سے قبل مشورہ لیا جاتا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جانور کے سینگ اور دانت غور سے دیکھیں۔ کچھ بیوپاریوں نے تو سینگ ایلفی سے بھی جوڑے ہوتے ہیں جبکہ دھوکے کی غرض سے کچھ بیوپاری جانور کو کم عمر ظاہر کرنے کے لیے اس کے دانت توڑ دیتے ہیں۔‘

مشتاق احمد کے مطابق دو دانتوں والے جانور کو عام زبان میں ’دوندا‘ کہا جاتا ہے جس کے سامنے کے دانت کافی بڑے ہوتے ہیں۔ ’جانور کے فرنٹ والے دانت آپ کے ہاتھوں کی انگلیوں کے ناخن سے بھی بڑے ہوتے ہیں، باقی دانت بھی ہوتے ہیں مگر وہ چھوٹے ہوتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’چار دانتوں والا جانور، جسے مویشی منڈی کی زبان میں ’چوگا‘ پکارا جاتا ہے، کے باقی دانت یا ابھی نکل رہے ہوں گے یا پھر وہ بڑے چار دانتوں سے قدرے چھوٹے ہوں گے۔‘

Eid

مویشی منڈی

ان کا کہنا ہے کہ ’مویشی منڈی پہنچ کر سب سے پہلے جانور کی آنکھوں میں دیکھیں۔ جانور کی آنکھ اور ناک سے اگر

پانی بہہ رہا ہے تو پھر یہ بیماری کی علامت ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جانور کو چلا کر دیکھنے کے ساتھ ساتھ جانور پر ہاتھ پھیریں۔‘

’جو جانور ہاتھ لگانے پر بھی سر نہیں اٹھاتا تو اس کا مطلب ہے کہ اسے نشے والا انجیکشن لگایا گیا ہے۔ خریداری کے بعد گھر میں اس جانور کو سنبھالنا مشکل ہو سکتا ہے۔‘

مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے بیوپاری فرید خان دیسی جانوروں کے کاروبار سے منسلک ہیں۔

فرید کے مطابق ’جن جانوروں کو فارمی انداز میں قربانی کے لیے تیار کیا جاتا ہے ان کے انتخاب میں زیادہ احتیاط کرنا لازمی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’دیسی جانوروں میں چربی کم ہوتی ہے اور وہ زیادہ پھرتیلے بھی ہوتے ہیں، ان جانوروں کا گوشت بھی ذائقے دار ہوتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’جانور کی خریداری کے لیے جتنا ممکن ہو اتنی ہی زیادہ مویشی منڈیوں کا رخ کیا جائے اور خریداری میں غیر ضروری عجلت سے بچا جائے۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.