’بابو سر ٹاپ کا یہ راستہ عملاً 2012 میں کُھلا تھا۔ ہر سال موسم گرما میں جب یہ راستہ عام ٹریفک کے لیے کُھلتا ہے تو میں اس پر کئی بار سفر کرتا ہوں۔ سنہ 2012 سے لے کر اب تک میں نے نہیں دیکھا اور سُنا کہ جون کے ماہ میں بابو سر ٹاپ کے اس راستے کے اردگرد برفباری ہوئی ہو۔‘
ضلع دیامیر کے علاقے چلاس کے رہائشی عبدالہادی ودود بتاتے ہیں کہ بابو سر پہاڑی کے ٹاپ پر عموماً برفباری ہوتی رہتی ہے جبکہ گلگت بلتستان کے گلیشیئرز پر بھی یہ سلسلہ سال بھر جاری رہتا ہے مگر جون، جولائی میں کبھی نیچے برفباری نہیں پڑتی۔عبدالہادی ودود کہتے ہیں کہ جون کے ماہ میں پڑنے والی برف اور درجہ حرارت کا اس حد تک کم ہونا ہم لوگوں کے لیے بھی نئی بات ہے۔
’ہو سکتا ہے کہ سردیوں میں کم برفباری کی وجہ سے قدرت کو ہم پر رحم آ گیا ہو اور اس نے جون کے ماہ میں برفباری دے کر سردیوں کی کسر نکال دی۔‘
پاکستان میں جون کا مہینہ عموماً شدید گرمی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ ملک میں پری مون سون بارشوں کے آغاز کا مہینہ بھی ہے لیکن اگر کوئی آپ کو یہ بتائے کہ جون کے مہینے میں ملک کے کسی حصے میں برفباری ہوئی ہے تو یقیناً آپ کہ لیے یہ ایک دلچسپ بات ہو گی۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ چند روز کے دوران ہونے والی یہی ’غیر معمولی‘ برفباری سیاحوں کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کی جانب کھینچ رہی ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں جون کے مہینے میں ہونے والی برفباری نے اکثر افراد کو حیران و پریشان اور کئی کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔
اس برفباری کے باعث گلگت بلتستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کی سرحد پر واقع بابو سر ٹاپ کا راستہ ایک روز بند رہا، ایسی ہی اطلاعات پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی وادی نیلم سے بھی موصول ہوئی ہیں۔ اسی طرح خیبرپختونخوا میں کچھ مقامات اور وسطی افغانستان میں بھی برفباری کی اطلاعات ہیں۔
محکمہ ماحولیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر قمر الزمان اس برفباری کو موسمی تبدیلی اور انتہائی شدید موسمی صورتحال قرار دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سب ثابت کر رہا ہے کہ پاکستان اس وقت شدید موسمی تبدیلیوں کی زد میں آ چکا ہے۔‘
ماہرین کے مطابق جون کے ماہ میں برفباری کی کم مثالیں موجود ہیں مگر برفباری کا ہونا ناممکنات میں سے نہیں اور اس کی مختلف وجوہات ہیں۔
مغربی ہوائیں اور بارشوں کا سلسلہ
محکمہ موسمیات پاکستان کے ترجمان ڈاکٹر ظہیر بابر کے مطابق ’پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں موجود بلند و بالا پہاڑوں اور گلیشیئرز کی چوٹی پر جون کا ماہ ہو یا مون سون وہاں پر بارش تو ہوتی ہی نہیں۔ وہاں پر صرف برفباری ہوتی ہے اور اس کا سلسلہ گرمیوں اور سردیوں میں جاری رہتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں درجہ حرارت سارا سال تقریباً منفی رہتا ہے۔ جب نیچے کے علاقوں میں بارشیں ہوں یا مون سون ہو تو وہاں پر برفباری ہونا معمول ہے لیکن کبھی کبھی ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے ان بلند و بالا پہاڑوں اور گلیئشیرز سے نیچے بھی برفباری ہو جاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جون کے ماہ میں ہونے والی برفباری کوئی ایسے بڑے اچھنبے کی بات نہیں۔ جب علاقہ اور خطہ موسمی تبدیلیوں کی زد میں ہو تو ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ اس کے بہرحال مثبت اور منفی اثرات ہو سکتے ہیں لیکن حالیہ برفباری کوئی اتنی زیادہ بھی نہیں تھی۔‘
ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق ’پاکستان میں مغربی اور بحیرہ عرب سے اٹھنے والا سلسلہ بہت شدید تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس سے پہلے بھی پری مون سون اور مون سون کے دوران مغربی اور بحیرہ عرب کی ہوائیں داخل ہوئی ہوں مگر اس مرتبہ وہ بہت زیادہ شدت سے داخل ہوئی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مغربی ہواؤں کے بہت زیادہ اثرات مرتب ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے درجہ حرارت بھی گرا۔
’اس درجہ حرارت کے اثرات جب سطح سمندر سے آٹھ ہزار میڑ سے اوپر والے علاقے پر پڑے تو کم ہوتے ہوئے درجہ حرارت نے بارش کو تھوڑی دیر کے لیے برف باری میں تبدیل کر دیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے ہم توقع کر رہے تھے کہ سندھ میں پری مون سون میں زیادہ بارشیں نہیں ہوں گی مگر خلافِ توقع ہم نے بارشیں دیکھی ہیں اس کی بڑی وجہ بحیرہ عرب سے اٹھنے والا سلسلہ ہے۔ اس وقت بارشوں کی وجوہات بحیرہ عرب اور مغربی سلسلہ ہے۔‘
محکمہ موسمیات کے ایک اور ماہر زبیر احمد صدیقی کہتے ہیں کہ ’ہم موسمی رجحانات میں بھی تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔ حالیہ مون سون میں ہم نے دیکھا کہ رجحان تبدیل ہوا۔ مغربی ہوائیں داخل ہوئی ہیں۔‘
پری مون سون میں رجحان کی تبدیلی
زبیر احمد صدیقی کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں عموماً مون سون، پری مون سون اور موسم گرما کے اندر ہونے والی بارشوں کی وجہ مغربی اور بحیرہ عرب سے اٹھنے والی ہوائیں نہیں بلکہ عموماً خلیج بنگال کی ہوائیں بنتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس مرتبہ رجحان میں تبدیلی ہوئی اور پری مون سون کی وجہ سے مغربی اور بحیرہ عرب کی ہوائیں بھی شامل ہو گئیں۔ جس کے باعث ہم نے دیکھا کہ تقریباً پورے ملک میں ایک ساتھ بارشیں ہوئیں۔
’پورے ملک ہی میں بارشیں اوسط سے زیادہ ہوئیں اور درجہ حرارت گر گیا۔‘
زبیر احمد صدیقی کہتے ہیں کہ ’پری مون سون اور مون سون میں یہ صورتحال برسوں بعد دیکھی جاتی ہے۔ عموماً جب رجحان کے مطابق مون سون اور پری مون سون شروع ہوتا ہے تو بارشیں پنجاب کے سیالکوٹ سے شروع ہوتی ہیں اور پورے ملک میں دیکھی جاتی ہیں مگر اس بار یہ سندھ میں بھی داخل ہوئی ہیں۔‘
ڈاکٹر سردار سرفراز کہتے ہیں کہ اس مرتبہ ابھی تک مشاہدے میں آیا ہے کہ خلیج بنگال کی ہوائیں کم ہی پاکستان میں داخل ہوئی ہیں۔
’پری مون سون کے دوران مغربی اور بحیرہ عرب کی ہوائیں چلتی رہی ہیں۔ بحیرہ عرب کی ہواؤں میں نمی ہوتی ہے۔ جب یہ دونوں ملیں تو درجہ حرارت گرا اور شمالی علاقہ جات میں برفباری کا یہ بھی ایک سبب بنیں۔‘
کامسیٹس یونیورسٹی ایبٹ آباد کے شعبہ ماحولیات کے ڈاکٹر عدنان احمد طاہر کہتے ہیں کہ ’مغربی ہوائیں عموماً سردیوں میں چلتی ہیں، گرمیوں میں نہیں۔
’یہ درجہ حرارت کم کرتی ہیں۔ گلگت بلتستان میں عموماً مون سون نہیں ہوتا۔ وہاں پر خشکی رہتی ہے مگر اس مرتبہ مغربی ہواؤں کی وجہ سے پورے ملک میں ایکدم درجہ حرارت کم ہوا۔‘
ڈاکٹر عدنان احمد طاہر کا کہنا تھا کہ عموماً گلگت بلتستان میں داخل ہونے والی ہوائیں ہمالیہ کے پہاڑوں سے ٹکرا کر واپس آ جاتی ہیں۔
’اس مرتبہ مغربی ہوائیں بھی شامل تھیں جس کے باعث درجہ حرارت کم ہوا اور ملک بھر میں زیادہ بارش کے علاوہ گلگت بلتستان میں برف باری بھی ہوئی۔‘
ڈاکٹر قمر الزمان کہتے ہیں کہ ’جہاں پر موسم کی اس تبدیلی، برفباری اور کم درجہ حرارت کا کوئی ایک آدھ بہتر نتیجہ نکل سکتا ہے وہاں پر اس کے کئی برے اثرات مرتب ہونے کا امکان بھی موجود ہے۔‘
زراعت اور انسانی صحت متاثر ہونے کا خدشہ
ڈاکٹر عدنان احمد طاہر کہتے ہیں کہ ان بارشوں اور برفباری سے پانی کے مسائل حل ہونے کا امکان موجود ہے۔
انھوں نے پیشگوئی کی کہ ’پری مون سون اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے جس کے بعد درجہ حرارت بڑھے گا اور یہ برف جلدی پکھلے گئی تو دریاؤں میں پانی کی صورتحال بہت بہتر ہو جائے گئی۔‘
ماہر ماحولیات اور سابق وفاقی وزیر امین اسلم کہتے ہیں کہ ’یہ بات تو ٹھیک ہے کہ پانی کا مسئلہ کسی نہ کسی حد تک حل ہو گا مگر اس کے ساتھ دیگر مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں ہر موسم میں زراعت ہوتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ مہینوں میں خلاف توقع زیادہ گرمی کی وجہ سے ہماری فصلیں اور پھل متاثر ہوئے ہیں۔ اب اس موسم کی زراعت اور پھلوں کو معمول کے گرم موسم کی ضرورت ہوتی ہے۔
’اگر وہ معمول کا گرم موسم نہیں ہو گا تو خدشہ ہے کہ اس موسم کی زراعت اور پھلوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘
امین اسلم کا کہنا تھا کہ ’موسم کا اثر براہِ راست انسانی جسم پر ہوتا ہے۔ سردیوں میں معمول اور اوسط سردی کی ضرورت ہوتی ہے۔ گرمیوں میں معمول اور اوسط گرمی کی ضرورت پڑتی ہے۔‘
’اب مارچ، اپریل، مئی میں گرمی زیادہ پڑ جائے اور جون میں درجہ حرارت جنوری فروری والا ہو جائے تو اس کے بھی انسانی جسم پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کئی ایسی بیماریاں ہیں جو سردیوں میں زیادہ پھیلتی ہیں اور گرمیوں میں ان کا زور ٹوٹ جاتا ہے جس کی وجہ درجہ حرارت ہوتا ہے۔
’اب گرمیوں میں بھی درجہ حرارت کم ہو گا اور غیر معمولی طور پر برفباری ہو گی تو ایسی بیماریوں اور جراثیم کو زیادہ طاقتور ہونے کا موقع ملے گا۔ اس سے براہ راست ہماری فوڈ سکیورٹی اور معاشیات متاثر ہو گئی۔ ہمارے انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچے گا۔‘
Hello to every body, it’s my first visit of this weblog;
this blog carries amazing and in fact fine data in support of visitors.