معروف ترک گلوکارہ گلشن کو ان کے اس بیان کے بعد گرفتار کر لیا گیا جس میں انھوں نے مذہبی مدارس کے بارے میں مذاق کیا تھا۔ گلوکارہ پر الزام ہے۔ کہ انھوں نے اپنے تضحیک آمیز بیان کے ذریعے نفرت بھڑکانے کی کوشش کی ہے۔
خیال رہے کہ اپریل میں گلوکارہ نے مذاق میں کہا کہ ان کے بینڈ کے ایک رکن کی نازیبا سوچ اس وجہ سے ہے۔ کیونکہ وہ ایک مدرسے سے پڑھے ہیں۔
اگرچہ ان کا یہ تبصرہ پرانا ہے۔ مگر اب وائرل ہونے کی وجہ وہ قدامت پسند حلقوں کی شدید تنقید کی زد میں ہیں۔
اُدھر ناقدین کا کہنا ہے۔ کہ ترک گلوکارہ کی یہ گرفتاری صدر رجب طیب اردوغان کی جانب سے اگلے سال ہونے والے انتخابات سے قبل اپنے لیے مزید حمایت کو یقینی بنانا ہے۔
اپنی حراست سے قبل گلشن، جنھیں ترکی کی میڈونا کہا جاتا ہے، نے سوشل میڈیا پر معافی مانگی اور کہا کہ ان کے الفاظ ان لوگوں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیے ہیں جن کا مقصد معاشرے میں مزید تقسیم پیدا کرنا ہے۔
ترک سوشل ميڈيا
ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر گلوکارہ نے کہا کہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہ مذاق کیا تھا جو اظہار رائے کی آزادی کے دفاع کے لیے کیا گیا۔ تاہم انھوں نے ‘ہر ایک سے معافی مانگی جسے ان کے تبصرے سے دکھ پہنچا ‘۔
صدر اردوغان جن کی اے کے پارٹی تقریباً 20 سال قبل پہلی بار اقتدار میں آئی تھی۔ انھوں نے خود ملک کے پہلے ‘امام خطیب ‘ مذہبی سکولوں میں سے ایک میں تعلیم حاصل کی تھی۔
یہ سکول ریاست نے خود نوجوانوں کو امام اور مبلغ بنانے کے مقصد سے تعمیر کیے تھے۔ حکومت میں شامل بہت سے دوسرے افراد نے بھی اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے۔
گلوکارہ، جن کا پورا نام گلشن کولاکوگلو ہے۔ اس سے قبل ترک معاشرے کے قدامت پسند عناصر کی جانب سے اپنے لباس اور ایل جی بی ٹی کے حقوق کی حمایت پر تنقید کا سامنا کر چکی ہیں۔
46 برس کی گلوکارہ کی گرفتاری نے ملک کو تقسیم کر دیا ہے۔ قدامت پسند اور حکومت کے حامیوں نے بڑے پیمانے پر ان کے ریمارکس کو ‘گستاخانہ ‘ قرار دیا ہے۔ جبکہ زیادہ لبرل اور اپوزیشن کی حامیوں نے اس گرفتاری کو غیر متناسب اور انتقامی قرار دیا ہے۔
یہ اقدام ملک میں متعدد میوزک فیسٹیولز پر حالیہ پابندیوں کے علاوہ اے کے پارٹی کی مبینہ ‘طرز زندگی میں مداخلت ‘ کے ارد گرد جاری بحثوں کے درمیان بھی سامنے آیا ہے۔