کرکٹ میچ میں اگر گیند باؤنڈری لائن پار کرتی ہے تو اسے چوکا کہتے ہیں. اگر میچ کے دوران کوئی کھلاڑی چوکا لگاتا ہے تو ٹیم کے مجموعی سکور کے ساتھ ساتھ کھلاڑی کے انفرادی سکور میں چار رنز کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے یہ تو پاکستان میں بچے بچے کو پتا ہے. کہ کرکٹ کے کھیل میں چوکا یا چھکا لگنے پر کس کے سکور میں کتنا اضافہ ہوتا ہے.! لیکن حیرت کی بات یہ ہے. کہ انڈیا میں جاری آئی پی ایل کے میچ کے دوران چوکا لگنے پر ٹیم اور کھلاڑی کے تو صرف سکور میں اضافہ ہوتا ہے. لیکن کچھ لوگوں کے اکاؤنٹس میں چوکے کے عوض. فی الفور 50 ہزار روپے تک کی رقم جمع ہو جاتی ہے۔
یہی نہیں بلکہ آئی پی ایل کے ایک میچ میں آخری اوور کی آخری گیند پر چھکا لگا. تو اس سے ٹیم کو تو صرف چھ رنز ملے لیکن کچھ لوگوں کے اکاؤنٹ میں ایک لاکھ روپے آ گئے۔
مگر یہ کون لوگ ہیں جو آئی پی ایل میں لگنے والے ہر چوکے یا چھکے پر امیر ہو رہے ہیں؟
یہ وہ سٹے باز ہیں جو آئی پی ایل کے میچز کے دوران شائقین سے بھی زیادہ ہر گیند بہت توجہ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
حیدرآباد میں ہونے والے ایک حالیہ میچ کے دوران پولیس نے سٹیڈیم میں ہجوم کے بیچ و بیچ سٹے بازی کرانے والے کچھ گروہوں کے کارندوں کو گرفتار کیا ہے۔
انڈیا میں ہر سال آئی پی ایل کے دوران سٹے بازی کا رجحان بڑھ جاتا ہے۔
سٹے بازی
سٹے بازی کی ابتدا کسی بھی آئی پی ایل کا میچ شروع ہونے سے پہلے ہو جاتی ہے۔ جیسے پلیئنگ الیون میں کون کون شامل ہو گا، اس پر بھی شرطیں لگتی ہیں. اور لوگ جیتتے یا ہارتے ہیں، انڈیا میں اس حوالے سے کچھ گیمنگ ایپس. بھی سامنے آئی ہیں جن میں براہ راست سٹے بازی کی جاتی ہے۔
کرکٹ تجزیہ کار وینکٹیش نے بی بی سی سے بیٹنگ کے بارے میں بات کی ہے. ان کے مطابق تلگو ریاستوں میں کچھ ایپس پر پابندی لگائی گئی ہے تاہم اس کے باوجود یہ ایپس مختلف شکلوں میں دستیاب ہیں۔
گیمنگ ایپس کے ساتھ بیٹنگ ایپس کی ایک بڑی تعداد ابھری ہے. جو شرط لگانے والوں کے لیے آسانی سے دستیاب ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سائبر کرائم پولیس خصوصی توجہ کے ساتھ ان پر. قابو پا سکتی ہے۔ ’بیٹنگ (سٹے بازی) صرف میچ میں بنائے گئے رنز پر نہیں بلکہ ٹاس. جیسی چیزوں پر بھی کی جاتی ہے۔‘
حال ہی میں سامنے آنے والے کچھ معاملات یہ ظاہر کرتے ہیں. کہ سٹے بازی، انڈیا کی حد تک، اب ہمیشہ کے لیے بدل رہی ہے۔ اس سے پہلے بارز، پب اور پرائیویٹ ہاؤسز میں سٹے بازی کی سرگرمیاں چلائی جاتی تھیں۔
اب حیدرآباد کے مضافاتی علاقوں میں فارم ہاؤسز میں سٹے بازی کی سرگرمیاں جاری ہیں جہاں 20 سے 25 عام فون، چار یا پانچ ٹی وی اور لیپ ٹاپ لگائے جاتے ہیں۔ حال ہی میں پولس نے سائبر کرائم قوانین کے تحت ایک فارم ہاؤس میں سٹے بازی کرنے والے چار افراد کے گروہ کو گرفتار کیا۔ ان کے پاس سے 40 لاکھ روپے ضبط کیے گئے. اور اکاؤنٹ میں موجود 30 لاکھ روپے منجمد کر دیے گئے۔
سائبر قوانین
آئی پی ایل 2023 کے آغاز سے ایک ہفتہ قبل سپیشل آپریشن ٹیم (ایس او ٹی) پولیس نے سائبر قوانین کے تحت بشیر آباد میں ایک میچ کے دوران سٹے بازوں کے اڈے پر چھاپہ مارا تھا۔
ان چھاپوں میں 50 لاکھ روپے ضبط اور 12 افراد گرفتار کیے گئے۔ معاملے پر ڈی سی پی سندیپ راؤ نے میڈیا کو بتایا کہ ’میچ ہوتے ہی پیسے آن لائن بھیج دیے جاتے ہیں۔ بعد میں ہمیں. کہیں پیسہ نظر نہیں آئے گا. ایک بار میچ ختم ہونے کے بعد پیسہ پکڑنا مشکل ہو جاتا ہے. اسی وجہ سے ہم میچ کے دوران چھاپہ مارنے میں کامیاب رہے۔‘
کرکٹ کے یہ بوکیز بیٹنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ شرط لگانے کے لیے. خفیہ زبان استعمال کرتے ہیں. جیسے ’انگلی‘ سے مراد ایک ہزار روپے، ’ہڈی‘ کا مطلب دس ہزار جبکہ ’ٹانگ‘ سے مراد ایک لاکھ روپے ہے۔
جیتنے والی ٹیم یا جیتنے کے سب سے زیادہ امکانات والی ٹیم کو ’فلائنگ‘ کہا جاتا ہے. ہارنے والی ٹیم کو ’کھانا‘ کہتے ہیں۔ مزید یہ کہ بیٹنگ کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے کچھ یوٹیوب چینلز اور ٹیلی گرام گروپس موجود ہیں. یہ میچ جیتنے والوں کی پہلے سے پیشگوئی کرنے کے ساتھ ساتھ شرط لگانے والوں کو نکات اور مشورے بھی فراہم کرتے ہیں۔
یہ واضح ہے کہ کرکٹ میں سٹے بازی کی سرگرمیوں کو پوری طرح روکا نہیں جا سکتا. خیال ہے کہ بڑے بوکیز بنیادی طور پر دہلی، ممبئی، حیدرآباد اور گوا جیسی جگہوں سے سٹے بازی کو کنٹرول کر رہے ہیں۔
انڈیا کے علاوہ ملائیشیا اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک سے بھی آئی پی ایل پر سٹے بازی چلائی جاتی ہے. پولیس کا کہنا ہے. کہ چونکہ یہ سب کچھ آن لائن ہو رہا ہے، اس لیے اس پر قابو پانا مشکل ہو گیا ہے۔
ایزی منی
ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی. کو بتایا کہ بوکیز دہلی، ممبئی اور حیدرآباد میں کام کر رہے ہیں جبکہ نیچے ان کے ’پنٹر‘ ساتھ دیتے ہیں۔ ’شرط لگانے سے لے کر جیتنے کے بعد پیسے بھیجنے تک. سب کچھ آن لائن گوگل پے اور فون پے پر کیا جاتا ہے۔ اس لیے انھیں پکڑنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘
پولیس اہلکار کے مطابق نوجوان ’ایزی منی‘ یعنی آسانی سے پیسہ کمانے کی لالچ میں سٹے بازی میں ملوث ہوتے ہیں اور پھر انھیں اس کی لت لگ جاتی ہے۔ پہلے یہ کام بڑے شہروں اور قصبوں تک محدود تھا. لیکن اب دیہات تک پھیل گیا ہے۔
18 مئی کو شاد نگر کے قریب نرلا گوڈا ٹانڈہ کے ایک 19 سالہ نوجوان نے سٹے بازی میں پیسے ہارنے کے بعد مبینہ طور پر خودکشی کر لی تھی۔ اسی طرح بھدردری کوٹھا گوڈیم. ضلع کے سائی کشن نامی نوجوان نے مبینہ طور پرپیسے ہارنے کے بعد خودکشی کی۔ سائی گزر بسر کے لیے پارٹ ٹائم نوکری کرتے تھے۔
ان کے اہلخانہ نے پولیس کو بتایا کہ سٹے بازی میں پانچ لاکھ روپے ہارنے کے بعد اس کی موت ہو گئی. اگرچہ اس طرح کے واقعات اکثر ہوتے رہتے ہیں لیکن سٹے بازی کی سرگرمیوں پر کنٹرول کا فقدان ہے۔