مصنوعی ذہانت: پاکستان میں تجارتی سامان کی کلیئرنس میں ’آرٹیفشل انٹیلیجنس‘ کیسے استعمال ہو رہی ہے

پاکستان میں کسٹم کے محکمے کی جانب سے درآمدی اور برآمدی مال کی کلیرنس کے لیے مصنوعی ذہانت کی خصوصیات کا نظام متعارف کرایا گیا ہے جس کے تحت بین الاقومی تجارت کے لیے اندرون و بیرون ملک آنے اور جانے والے مال کی تیز تر کلیئرنس کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

مصنوعی ذہانت کے حامل اس نظام کو حالیہ مہینوں میں نافذ کیا گیا اور کسٹم حکام کے مطابق جولائی کے مہینے میں آدھے سے زیادہ درآمدی اور برآمدی سامان کا اکثریتی حصہ مصنوعی ذہانت کے حامل سسٹم سے گزر کر ہی کلیئر ہوا۔

پاکستان میں بین الاقوامی تجارت کے شعبے سے منسلک افراد کے مطابق یہ نظام ’سمارٹ پورٹس‘ کے اس تصور کے تحت متعارف کرایا گیا ہے جس کے ذریعے پورٹس کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے اور درآمدی اور برآمدی سامان کی کلیئرنس کو کم سے کم وقت ممکن بنایا جا سکے۔

ماہرین کے مطابق بین الاقوامی منڈی میں ملکی مصنوعات کو زیادہ مسابقتی بنانے کے لیے جہاں کم کاروباری لاگت ضروری ہے تو اس کے ساتھ برآمدی مال کی تیز تر کلیئرنس بھی لازمی ہوتی ہے تاکہ یہ مال بروقت خریدار تک پہنچ سکے۔

مصنوعی ذہانت کا نظام کیسے کام کرتا ہے ؟

تجارتی مال کی کلیئرنس کے لیے مصنوعی ذہانت کے حامل نظام کے بارے میں جب فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے رابطہ کیا گیا تو ایف بی آر حکام نے ایک تحریری بیان میں بی بی سی اردو کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کسٹم نے عالمی بینک کی تکنیکی ٹیم کی مشاورت اور مدد سے یہ نظام تیار کیا ہے جس میں مصنوعی ذہانت کے خصوصیات کے حامل سافٹ ویئرزانسٹال کیے گئے ہیں۔

ایف بی آر کے مطابق مصنوعی ذہانت کی خصوصیات کا حامل ’وی بیک‘ نامی سافٹ وئیر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سسٹم میں متعارف کرایا گیا ہے جو مصنوعی ذہانت کے ذریعے رسک مینجمنٹ کا کام کرتے ہیں۔

مصنوعی ذہانت

آل پاکستان شپنگ ایسوسی ایشن کے چیئرمین عاصم صدیقی نے اس نظام کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بنیادی طور پر سافٹ وئیر پروگرام ہے جو تاریخی طور پر ڈیٹا کو پڑھتا ہے

’سامان منگوانے والے کی ہسٹری دیکھ کر یہ پری کلیئر کر دیتا ہے کہ یہ درآمد کنندہ ایک اچھی ساکھ کا حامل ہے۔‘

’مثلاً ملٹی نیشنل کمپنیاں یا بڑے تجارتی گروپس جب کوئی خام مال بیرون ملک سے منگواتے ہیں تو اس نظام میں ان کی پوری ہسٹری موجود ہے جس میں کوئی انڈر انوائسنگ یا ہیر پھیر نہیں ہوتا تو یہ نظام سرعت سے ان کے سامان کی کلیئرنس کر دیتا ہے اور وہ ڈیوٹی ادا کر کے اپنا سامان لے جاتے ہیں۔‘

عاصم صدیقی نے بتایا کہ کسٹم میں آٹو میشن کا کام بیس سال پہلے شروع ہوا تھا اور اب بڑھتے بڑھتے مصنوعی ذہانت کی سطح پر پہنچ گیا ہے جس سے تجارتی سامان کی کلیئرنس بہت تیزی سے ہوتی ہے۔

بین الاقوامی تجارت کے ماہر اقبال تابش نے مصنوعی ذہانت کے اس نظام کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ دراصل یہ نظام ڈیجیٹیل طریقے سے کسی سامان پر حکومت کی جانب سے وصول ہونے والوں ٹیکس سے لے کر اس کی کلیئرنس کے تمام مراحل کو بہت کم وقت میں حل کر دیتا ہے۔

انھوں نے کہا اس نظام کے تحت تجارتی سامان کی ساری کلیئرنس بغیر ’کسی انسانی مداخلت‘ کے ہو جاتی ہے اور کسی تاجر کو دفتروں کے چکر لگا کر اپنے سامان کی کلیئرنس کے لیے ادائیگی اور کاغذی کارروائی نہیں کرنی پڑتی۔

اقبال تابش نے بتایا کہ اس نظام کے تحت تجارتی سامان پر ٹیکس کی وصولی سے لے کر ری بیٹ کے سارے مراحل بغیر کسی انسانی مداخلت کے طے ہو جاتے ہیں اور مصنوعی ذہانت ایک ازکار طریقے کے ذریعے سب تخمینے لگا دیتی ہے اور تاجر آن لائن پیمنٹ کر کے اپنے سامان کو کلیر کرا لیتا ہے۔

اقبال تابش نے کہا کہ اب کسٹم محکمہ مزید ایک نئے نظام ’پاکستان سنگل ونڈو‘ کی طرف بڑھ رہا ہے جس کے تحت ایک پلیٹ فارم کے تحت سارے ریگولیٹری قواعد و ضوابط پورے کیے جائیں گے اور نظام کی کلیئرنس ہو پائے گی۔

اقبال تابش نے بتایا کہ مصنوعی ذہانت کے اس مجموعی نظام میں مانیٹرنگ بھی ایک حصہ ہے جو لفٹرز پر ٹریکر سے لے کر یارڈز میں ٹریکر تک پھیلا ہوا ہے کہ جس میں کسی تجارتی سامان کی لوڈنگ، آف لوڈنگ سے لے کر وہ کہاں پڑا ہے، اس کا پتہ لگایا جاتا ہے۔

تجارت

ایف بی آر نے اس نظام کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ نظام مشکوک مال کی نشاندہی بھی کر لیتا ہے اور اس کی روشنی میں مال کو چیک کیا جاتا ہے اور درآمد ہونے والے سامان کے سارے کاغذات کی سکروٹنی کی جاتی ہے جبکہ قواعد و ضوابط پر پورا اترنے والے مال کو یہ یہ نظام سرعت سے کلیئر کردیتا ہے۔

ادارے نے بتایا کہ کسی بھی قسم کے رسک کو جانچنے کے لیے اس سسٹم کو باقاعدہ بنیادوں پر اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔

مصنوعی ذہانت کے نظام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

تجارتی مال کی کلیئرنس کے لیے مصنوعی ذہانت کے نظام کی ضرورت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ماہرین نے کہا کہ اس کی سب سے بڑی ضرورت اس پورے نظام میں ’انسانی مداخلت‘ کم کرنا ہے تاکہ تجارتی سامان کی کلیئرنس سرعت سے ہو سکے اور اس میں ناجائز طریقوں کا سدباب کیا جا سکے۔

ان کے مطابق اس طریقہ کار سے غلط طور پر کام کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔

اقبال تابش نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کے حامل اس سسٹم نے انسانی مداخلت کو کم کر دیا ہے اور کسی سامان کی تجارت پر حکومت کو ادا کیے جانے والے ٹیکس کی رقم آن لائن طریقے سے ادا کر دی جاتی ہے اور مال کی کلیئرنس ہو جاتی ہے۔

عاصم صدیقی نے بھی اس نظام کے تحت ’انسانی مداخلت‘ کے کم ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ ٹیکس کا تخمینہ ایک خود کار طریقہ کار سے لگا دیتا ہے جس میں ’انسانی مداخلت نہیں ہوتی‘ اور کسٹم کے مراحل بھی کم ہوتے ہیں۔

مصنوعی ذہانت

مصنوعی ذہانت کے اس نظام کا فائدہ کیا؟

پاکستان میں کسٹم حکام کے مطابق جولائی کے مہینے میں آدھے سے زیادہ درآمدی اور برآمدی سامان اس نظام کے تحت کلیئر ہوا۔

مصنوعی ذہانت کے حامل اس سسٹم کے فوائد کے بارے میں بات کرتے ہوئے عاصم صدیقی نے کہا اس کی وجہ سے ایک تو پورٹس پر رش کم ہو گا کیونکہ اچھی ساکھ رکھنے والی کمپنیوں کا سامان بغیر کسی تعطل کے کلیئر ہو جاتا ہے اور ڈیوٹی اور ٹیکس وغیرہ کی ادائیگی کے ساتھ پورٹ سے نکل جاتا ہے۔

انھوں نے کہا اس سسٹم کی وجہ سے پاکستان کی علاقائی تجارت کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے کیونکہ وسطیٰ ایشیا کی ریاستوں سے تجارت اور ان کے سامان کی ترسیل کے بارے میں جو بات چیت ہو رہی ہے اسے اس نظام کی وجہ سے کافی تقویت ملے گی۔

عاصم صدیقی نے کہا کہ بیرونی کمپنیوں کو پاکستان میں حکومتی اداروں کے ریگولیٹری قواعد و ضوابط اور ان کی وجہ سے مال کی ترسیل میں سست روی پر تحفظات رہتے ہیں تاہم اس نظام سے ان کی حوصلہ افزائی ہو گی کیونکہ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے ٹیکس کا تخمینہ، اس کی ادائیگی بروقت ہو گی اور اس میں کسٹم مراحل کم ہو جائیں گے۔

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق وائس چیئرمین یونس سومرو نے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اکتوبر 2011 میں ’وی بوک‘ نامی سسٹم کا نفاذ ہوا اور اب یہ بڑھ کر مصنوعی ذہانت تک جا پہنچا۔

انھوں نے کہا کہ آن لائن سسٹم کی وجہ سے سہولیات تو حاصل ہوئی ہیں کہ اب مال کی کلیئرنس کے لیے حکومتی اداروں سے پہلے سے کم واسطہ پڑتا ہے۔

ایف بی آر کے مطابق ورلڈ کسٹمز آرگنائزیشن اپنے سکیورٹی اور سہولتی فریم ورک اور کیوٹو کنونشن کے تحت پورٹس اور بارڈر سٹیشنز پر تجارتی کارگو کی سپلائی اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مشکوک اشیا کی سکیننگ کو ترجیح دیتی ہے۔

’اس عمل درآمد سے پاکستان میں کسٹمز کا محکمہ نہ صرف سپلائی کی سکیورٹی کو یقنی بنا سکے گا بلکہ اشیا کی ڈیکلیریشن اور درآمدکنندگان کی طرف سے ٹیکسز اور ڈیوٹیز کی درست ادائیگی کو بھی یقنی بنائے گا۔‘

’اس نئے نظام کی بدولت کارگو کلیرنس تیز ہوگی، لاگت کم آئے گی اور پورٹس پر رش کم ہو گا اور اس کے ساتھ کسٹمز طریقہ کار میں جدت آئے گی۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.