لیکن ایک نئی دریافت کے نتیجے میں ایک ایسی حنوط شدہ لاش یا ممی کی شناخت ہوئی ہے جس کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ اس کا تعلق بھی قدیم مصر کے اعلیٰ طبقے سے تھا۔
اس گمان کی وجہ یہ ہے کہ دو ہزار تین سو سال قبل اس لاش کو سونے کے دل کے ساتھ محفوظ کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ اس چودہ پندرہ سالہ لڑکے کی لاش تو انیس سو سولہ میں دریافت کی گئی تھی تاہم تقریباً ایک صدی تک یہ ممی قاہرہ میں مصر کے میوزیم میں درجنوں حنوط شدہ لاشوں کے ساتھ سٹور میں پڑی رہی جس کی وجہ سے ماہرین اس کا تفصیلی جائزہ نہیں لے سکے۔
تاہم حال ہی میں قاہرہ یونیورسٹی کی ایک ٹیم، جس کی قیادت ڈاکٹر سحر سلیم کر رہی تھیں، نے سی ٹی سکین کے ذریعے اس لاش کا جائزہ لیا تو وہ حیران رہ گئیں۔
ساحرہ سلیم نے فرنٹیئرز ان میڈیسن جرنل میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا ہے کہ ان کی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ مردے کے جسم پر 21 مختلف اقسام کے 49 تعویذ تھے، جن میں سے بہت سے سونے کے بنے ہوئے تھے اور اسی وجہ سے، ممی کو ’گولڈن بوائے‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اس دریافت شدہ ممی کو مصر کے عجائب گھر کے ایک کمرے میں رکھا گیا ہے جہاں اس کی نمائش کی جائے گی۔
پوشیدہ خزانہ
سکینز سے یہ تعین کرنا ممکن ہوا کہ نوجوان اعلیٰ طبقے سے تھا کیونکہ ’اس کے دانت اور ہڈیاں صحت مند تھیں، اور ان میں غذائی قلت یا بیماری کے شواہد نہیں تھے‘ اور اس وجہ سے بھی کہ اس کی باقیات کو ’معیاری طریقے سے’ ممی کیا گیا تھا جس میں دماغ اور آنتوں کو ہٹانا شامل تھا۔
تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان کے جسم کو ڈھانپنے والی پٹیوں کے نیچے مردے کے غیر ختنہ شدہ عضو تناسل کے ساتھ دو انگلیوں کی لمبائی جتنی ایک چیز تھی۔ اس کے منھ میں ایک سنہری زبان تھی۔ اور سینے کے خالی حصے میں سونے سے بنا دل کی شکل والا ایک تعویذ رکھا تھا۔
سحر سلیم بتاتی ہیں کہ قدیم مصری اپنے مردوں کی لاشوں پر تعویذ اس مقصد کے ساتھ رکھتے تھے کہ آخرت میں ان کی ’حفاظت ہو‘۔ ماہر آثار قدیمہ نے بتایا کہ ’منھ کے اندر سنہری زبان اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ مرنے والا موت کے بعد بول سکے۔‘
نوجوان کی لاش
تصاویر میں یہ بھی دکھایا گیا۔ کہ نوجوان کی لاش کو صندل اور سرخس یا فرن کے ہار پہنائے گئے تھے۔
اس ممی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بطلیما کے آخری دور 332 – 30 قبل مسیح کی ہے۔ اور یہ سنہ 1916 میں ملک کے جنوب میں واقع ایڈفو میں پائی گئی تھی۔ یہ برطانوی ماہر آثار قدیمہ ہاورڈ کارٹر کی قیادت میں کی جانے والی ایک کھدائی کے چھ سال قبل ملی تھی۔ کارٹر کو اپنی کھدائی کے دوران بادشاہوں کی وادی میں توتن خامون کا مقبرہ ملا تھا۔
نوجوان کی باقیات کو دو تابوتوں میں محفوظ کیا گیا تھا۔ جس کے باہری حصے میں یونانی زبان میں ایک نوشتہ تھا جبکہ اندرون لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ لاش کے چہرے پر سنہری ماسک تھا۔
تباہ کیے بغیر تحقیق کریں
سحر سلیم کا خیال ہے کہ یہ دریافت آنے۔ والے دوسری دریافتوں کی محض ایک جھلک ہے۔
انھوں نے کہا ’مصر میں 19ویں اور 20ویں صدی کے اوائل میں وسیع کھدائیاں کی کئيں جس کے نتیجے میں ہزاروں محفوظ قدیم لاشوں کو نکالا گیا۔ جن میں سے بہت سی اب بھی اپنے تابوت میں لپٹی پڑی ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا ’1835 میں اپنے افتتاح کے بعد سے قاہرہ کا مصری عجائب گھر ان دریافتوں کے لیے۔ ایک ذخیرہ کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔ اور اس کے تہہ خانے اس قسم کی ممیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ کئی دہائیوں سے نہ تو ان پر مطالعہ کیا گيا ہے۔ اور نہ ہی ان کی نمائش کی گئی ہے۔’
ماہر تعلیم نے کہا کہ ماضی میں۔ ممیوں سے پٹیاں ہٹا دی جاتی تھیں۔ اور تحقیق اور تفریحی مقاصد کے لیے لاشوں کو ناگوار طریقے سے الگ کیا جاتا تھا۔
انھوں نے کہا کہ اب کمپیوٹیڈ ٹوموگرافی کا استعمال ان میں سے بہت سے باقیات کو نقصان پہنچائے۔ بغیر ان پر تحقیق کا ایک بہترین ذریعہ بن سکتا ہے۔ جو کہ ہمیں ‘قدیم دور میں انسانوں کی صحت، عقائد اور صلاحیتوں کے بارے میں مزید جاننے کی راہ ہموار کرے گا۔‘
انھوں نے کہا ’کمپیوٹڈ ٹوموگرافی ریڈیوولوجی میں ایک اہم پیشرفت کی نمائندگی کرتی ہے۔ ایک ہی تصویر کو استعمال کرنے کے بجائے۔ جسم کے پتلے حصوں (سلائسز) کے سینکڑوں تخمینوں کو ملا کر ایک مکمل تین جہتی ماڈل بنایا جا سکتا ہے۔‘