‘ہمارا کچھ نہیں بچا۔۔۔ میری والدہ کی وفات ہو گئی تھی اور میں نے ان کی کچھ یادیں گھر میں سنبھال کر رکھی تھی، میری شادی کے جوڑے اور تصویروں والے البم سے لے کر گھر میں سب کچھ جل کر خاک ہو گیا ہے۔ ہمارے پاس بس یہ ایک ایک جوڑا ہی بچا ہے جو ہم پچھلے دو دنوں سے پہنے ہوئے ہیں۔’
یہ الفاظ اس جوڑے کے ہیں. جو لاس اینجلس میں لگنے والی آگ کے بعد آج اپنا جلا ہوا گھر دیکھنے پہنچے جس میں عمارت سمیت سب کچھ جل کر خاکستر ہو چکا تھا۔
جنگل کی آگ سے متاثرہ علاقوں سے اپنے گھر باہر چھوڑ کر جانے والے رہائشی آب جب واپس لوٹے تو انھیں ہر طرف تباہی کے مناظر ملے ہیں۔ ان کے گھر اور کاروبار راکھ کا ڈھیر بن گئے ہیں۔
پاؤل بیرن 12 سال سے لاس اینجلس میں رہ رہے ہیں۔ انھیں اپنی پارٹنر اور پالتو جانوروں کے ساتھ گھر اور علاقہ چھوڑنا پڑا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ‘یہ تباہی سے بھرپور کسی ہالی وڈ فلم جیسا منظر تھا۔ ہر طرف آگ کی چنگاریاں اڑ رہی تھیں۔ لوگ اپنے بچوں اور پالتو جانورں کے ساتھ سڑکوں پر حیران پریشان کھڑے تھے۔’
‘پولیس اور فائر بریگیڈ کی گاڑیاں سائرن بجا رہی تھیں اور فضا میں ہیلی کاپٹر اڑ رہے تھے۔۔۔ تبھی ہمیں علاقہ چھوڑنے کا الرٹ ملا۔۔۔ ہم گاڑیوں میں نکلے مگر اتنا رش ہو گیا. کہ سڑکیں بلاک ہو گئیں. اور ہم نے پیدل جانے کا فیصلہ کیا۔’
وہ کہتے ہیں کہ ہم خوش قسمت تھے کہ بچے گئے۔ بہت سے لوگوں کے گھر، کاروبار وغیرہ سب جل گیا۔
لاس اینجلس میں لگنے والی آگ کی وجہ کیا بنی؟
لاس اینجلس کے جنگلات میں لگنے والی آگ میں اب کم از کم 10 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو گئی ہے۔ شہر میں گھروں اور عبادت گاہوں سے لے کر ہر قسم کی 10. ہزار سے زیادہ عمارتیں جل کر خاک ہو گئی ہیں۔
فائر فائٹرز آگ کے پھیلاؤ پر قابو پانے کی کوششیں کر رہے ہیں جبکہ پولیس اس بات کی تحقیقات کر رہی ہے کہ کہیں یہ آگ جان بوجھ کر تو نہیں لگائی گئی۔
پولیس نے آتش زنی کے شبے میں ایک شخص کو گرفتار کیا ہے جبکہ خالی کرائی گئی املاک لوٹنے کے الزام میں بھی 20 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
کاؤنٹی کے تقریباً ایک لاکھ 80 ہزار رہائشیوں کو انخلا کے احکامات جاری کیے جا رہے ہیں۔
فائر فائٹرز کی کوششوں کے باوجود سب سے بڑی آگ اب تک مکمل طور پر بے قابو ہے۔ موسمی حالات اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے سبب خیال کیا جا رہا ہے. کہ آنے والے دنوں میں ہوا ان شعلوں کو مزید بھڑکائے گی۔