پاکستان اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے حکام نے رواں ہفتے کراچی کی بندرگاہ پر یو اے ای کے تعاون سے ’کراچی گیٹ وے ٹرمینل پاکستان‘ کا سنگ بنیاد رکھا، جسے پاکستانی حکام اور تجزیہ کاروں نے بحری تجارت کے لیے. ایک انقلابی قدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے. کہ اس ٹرمینل کی وجہ سے عالمی سطح پر کراچی پورٹ کی ساکھ میں اضافہ ہو گا۔
اکستان کے وفاقی وزیر برائے بحری امور قیصر شیخ نے پیر (22 اپریل). کو متحدہ عرب امارات کے قونصل جنرل بخیت عتیق کے ساتھ کراچی پورٹ پر کراچی گیٹ وے ٹرمینل کا سنگ بنیاد رکھا۔
گذشتہ سال اپریل میں اُس وقت کے وفاقی وزیر برائے بحری امور. فیصل سبزواری نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے. ساتھ ایک معاہدے کے تحت حکومت پاکستان نے کراچی گیٹ وے ٹرمینل لمیٹڈ (کے جی ٹی ایل) کی برتھ چھ سے نو تک یو اے ای کی کمپنی کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
بقول سابق وفاقی وزیر برائے بحری امور: ’معاہدے کے تحت متحدہ عرب امارات. کراچی پورٹ ٹرسٹ کو پانچ کروڑ ڈالر فوری طور پر ادا کرے گا. جبکہ اس ٹرمینل کی توسیع کے لیے آنے والے تین سے پانچ سال کے دوران 10.2 کروڑ ڈالر خرچ کرے گا۔‘
کارگو ٹرمینل
220 ملین ڈالر کے بلک کارگو ٹرمینل کے معاہدے والے اس منصوبے کا اب باضابطہ افتتاح کردیا گیا ہے، جس کے تحت کراچی پورٹ کے بلک ٹرمینل اور دس برتھوں. کی لیز متحدہ عرب امارات. کے ابوظبی پورٹس گروپ کو دے دی گئی ہے۔
افتتاح کے ساتھ ہی ابو ظبی پورٹس گروپ نے کراچی پورٹ کو پورٹ کنسیشن ایگریمنٹ کی مد میں. ڈھائی کروڑ ڈالر اور بندرگاہ استعمال کرنے. کی مد میں ایڈوانس رقم ڈھائی کروڑ ڈالر سمیت کل پانچ کروڑ ڈالر کا چیک دیا۔ معاہدے کے تحت کے جی ٹی ایل کراچی پورٹ. کو سالانہ منافعے کا 15 فیصد ادا کرے گا۔
کراچی گیٹ وے ٹرمینل لمیٹڈ کے ڈپٹی مینیجر مارکیٹنگ اینڈ کمرشل کمال صدیقی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کراچی پورٹ پر عالمی مارکیٹ کے بڑے کھلاڑی متحدہ عرب امارات کی موجودگی کے باعث اس کی ساکھ میں اضافہ ہو گا اور دوسرے ملکوں کا کراچی بندرگاہ میں سرمایہ کاری کے لیے اعتماد بحال ہو گا۔‘
کمال صدیقی کے مطابق اس معاہدے کے تحت بنائے جانے والے ٹرمینل پر عالمی معیار کے جدید ترقیاتی کام ہوں گے۔
’اس جدید اور عالمی معیار کے ترقیاتی منصوبے کے باعث بندرگاہ پر تجارتی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی۔ پہلے جو بحری جہاز سامان سے خالی کرنے یا بھرنے میں 15 دن لگتے تھے. وہ اب تین سے چار دن میں فارغ کر دیے جائیں گے۔ اس کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں میں بھی بے پناہ اضافہ ممکن ہو گا۔‘
کراچی پورٹ کی اہمیت
1857 میں تعمیر ہونے والا کراچی پورٹ نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کی بڑی اور مصروف ترین بندرگاہوں میں سے ایک ہے۔
کراچی پورٹ ٹرسٹ کی ویب سائٹ کے مطابق کراچی بندرگاہ پر سالانہ دو کروڑ 60 لاکھ ٹن سامان کی تجارت ہوتی ہے، جو پاکستان کی کل تجارت کا تقریباً 60 فیصد ہے۔
دنیا کے ساتھ برآمدات اور درآمدات کے سامان کے بڑے حصے کی ترسیل اس بندرگاہ سے کی جاتی ہے. اور اپنے محل و وقوع کے باعث کراچی بندرگاہ جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا. اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے درمیان اہم تجارتی مرکز بھی سمجھی جاتی ہے۔
جغرافیائی محل وقوع کے باعث کراچی بندرگاہ دنیا کی اہم آبی گزرگاہ آبنائے ہرمز کے قریب واقع ہے۔ 21 میل چوڑی آبنائے ہرمز بحری جہازوں کی آمد رفت کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے. اور خلیج عمان اور خلیج عرب کے درمیان واقع ہے
آبنائے ہرمز کے شمالی ساحل. پر ایران اور جنوب میں متحدہ عرب امارات اور اومان واقع ہیں۔
گیٹ وے ٹرمینل
کراچی میں مالیاتی امور اور بندرگاہ سے متعلق تجارتی امور کے ماہر اور تجزیہ نگار تنویر احمد ملک کے مطابق متحدہ عرب امارات کے ابو ظبی پورٹس گروپ کو معاہدے کے تحت دیا جانے والا. کراچی پورٹ گیٹ وے ٹرمینل پہلے ایک پاکستانی فرم کے پاس تھا. اور اس کا نام پاکستان انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل یا پی آئی سی ٹی کے نام سے چل رہا تھا۔ یہ ٹرمینل اس فرم کے پاس 2002 سے 2023 تک تھا۔
2023 میں معاہدے کی معیاد پوری ہونے کے بعد اب یہ ٹرمینل نئے نام سے ابو ظبی پورٹس گروپ کو دیا گیا ہے۔
تنویر احمد ملک کے مطابق : ’ابو ظبی پورٹس گروپ یا اے ڈی گروپ ابو ظبی پورٹ کا انتظام سنبھالتا ہے اور ان کے پاس وسیع تجربے کے ساتھ سرمایہ کاری کرنے اور اس ٹرمینل کی وسعت بڑھانے کی قوت بھی ہے۔
’اس لیے. یہ امید کی جاتی ہے کہ یہ گروپ نہ صرف اس ٹرمینل کو جدید مشینری سے اپ گریڈ کرے گا بلکہ عالمی معیار کے ایکسپرٹ بھی لائے گا۔ جس سے ٹرمینل پر تجارتی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔
’اے ڈی گروپ کی جانب سے اس ٹرمینل کا انتظام سنبھالنے کے باعث نہ صرف امپورٹ اور ایکسپورٹ کنٹینرز کے لوڈ اور ان لوڈ. میں تیزی کے ساتھ عالمی کمپنیوں کی دلچسپی میں بھی اضافہ ہوگا۔‘
Zhdhdbdb# hchchxhxgxgxhxh
Hfhchfhhcjchccjhchcjfjxhhxydahhshsuu. Hxhgdgddhdhdhduhhdurhdhhdhdnnfhjdhdjjdkdkfhfkdjdjdhdjdhjdhdkffhnd dbdbddmdbdmdbndbdnxnxhdhfddjxnnbdbdhdhdhhdhdhfhfhfhhfhdhfhhdhfhdgfhhfhhfhdhdhdhdhhfhdhdhdhdhgfydhdjdiwiwhdhdjdjddh