جنوبی یونان کے حکام نے پیر کو بتایا کہ خطرے میں گھری ایک کشتی سے 90 تارکین وطن کو بچایا گیا. جس کے بارے میں خیال ہے کہ وہ ترکی سے اٹلی جا رہی تھی. اور اس میں پاکستانی شہری بھی سفر کر رہے تھے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق امریکی ’فلیگڈ‘ کشتی میں سوار تارکین وطن میں 37 بچے، 35 مرد اور 18 خواتین شامل تھیں۔ ان کا تعلق افغانستان، بنگلہ دیش، پاکستان، عراق، اور مصر سے تھا۔
ریسکیو کی ضرورت تب پیش آئی. جب اتوار کی دوپہر ایک مسافر نے یونانی جزیرے کتھیرا کے قریب ڈسٹریس کال یعنی مدد کے لیے سگنل بھیجا۔ یہ جزیرہ ایتھنز سے تقریباً 250 کلومیٹرز کی دوری پر ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ دو مسافروں کو بعد میں سمگلنگ کے الزام میں حراست میں لیا گیا. جبکہ باقیوں کو ایک قریبی پورٹ پر رجسٹریشن کے لیے لے جایا گیا۔
سمگلرز نے حالیہ سالوں میں استعمال شدہ کشتیوں کا استعمال شروع کر دیا ہے جن کے بارے میں بعد میں انکشاف ہوتا ہے. کہ وہ ترکی سے چوری شدہ ہیں اور یورپی آبی راستوں پر پکڑے جانے کے امکان سے بچ رہی ہوتی ہیں۔
یہ کشتیاں اکثر یونان سے ہوتے ہوئے گزرتی ہیں اور اٹلی کے مین لینڈ کا رخ کرتی ہیں. جو ان کو وسطی یورپی ممالک تک رسائی دیتا ہے۔
چھوٹی کشتی
اٹلی تک کا طویل راستہ زیادہ منافع کا باعث بنتا ہے، جس میں عمومی طور پر ایک مسافر کو سمگلروں کو نو ہزار ڈالر دینے ہوتے ہیں۔ یہ رقم ترکی کے ساحل سے ایک چھوٹی کشتی میں یونان تک جانے کے لیے. دی جانے والی رقم سے چھ گنا زیادہ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔
اکتوبر میں کتھیرا جزیرے پر ایک تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے چھ اموات ہوئی تھیں. جبکہ 80 افراد کو بچا لیا گیا تھا۔
اس سے قبل 26 فروری 2023 کو اٹلی کے ساحل کے قریب ہونے والی کشتی کے حادثے میں دو پاکستانی جان سے چلے گئے تھے اور 17 کو بچایا لیا گیا تھا۔
اس واقعے پر وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی دکھ کا اظہار کیا تھا. اور دفتر خارجہ کو جلد از جالد تمام حقائق حاصل کرنے کی ہدایت کی تھی. تاکہ قوم کو اس مسئلے پر اعتماد میں لیا جائے۔