نوید احمد ادویات بنانے کی فیکٹری چلاتے ہیں، جس کا 87 فیصد خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے۔
ان کا سامان پچھلے چار ماہ سے بندرگاہ پر پھنسا ہوا ہے۔ انہوں نے خبر پڑھی کہ گورنر سٹیٹ بینک نے کہا ہے۔ کہ اگلے ہفتے ملک میں ڈالر آجائیں گے۔
ڈالر کی کمی
وہ خوش ہوئے کہ ڈالر آنے سے ان کا مال بھی کلیئر ہو جائے گا لیکن ان کی خوشی زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکی۔
جب ان کے دوست نے انہیں بتایا کہ سٹیٹ منسٹر عائشہ غوث پاشا نے ادویات بنانے والوں کے نمائندے سے کہا کہ اگر ڈالر آ بھی گئے۔ تو بھی ساری امپورٹ نہیں کھل سکے گی۔ آپ کو صبر کرنا ہو گا۔
نوید اس نتیجے پر پہنچے کہ آئی ایم ایف سے ڈالر ملنے کے بعد بھی مشکلات کم نہیں ہوں گی۔ اس لیے وہ اپنی فیکٹری بنگلہ دیش منتقل کرنے کا سوچنے لگے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جب حکمران ملک چلانے کے لیے سنجیدہ ہوں گے تو وہ کاروبار واپس پاکستان لے آئیں گے۔
لاہور چمبر آف کامرس انڈسٹری پروگریسو گروپ کے صدر خالد عثمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چار ارب ڈالر اگر مل بھی جاتے ہیں تو حالات نہیں بدلیں گے۔
پہلے آئی ایم ایف کی قسط سے مہینے گزرتے تھے۔ اب ہفتے گزرتے ہیں۔ سٹیٹ بینک کی جاری رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2022 کے بعد پہلی مرتبہ موجودہ ہفتے ڈالر ذخائر کم ہونے کی بجائے بڑھے ہیں۔
ڈالر ذخائر 4.4 ارب ڈالر سے بڑھ کر 4.6 ارب ڈالر ہو گئے۔ ایسا نہیں کہ ملکی معیشت بہتری کی طرف جا رہی ہے یا سرمایہ کاروں کا معیشت پر اعتماد بحال ہو گیا ہے۔ بلکہ اطلاعات کے مطابق یہ اضافہ منی ایکسچینجرز سے ڈالر کی خریداری کے بعد ہوا۔
سٹیٹ بینک نے اوپن مارکیٹ سے ڈالر خرید کر اپنے ذخائر بڑھائے ہیں۔ یہ ڈالر کس ریٹ پر خریدے گئے اس بارے میں کوئی رپورٹ سامنے نہیں آ سکی۔
ذخائر بڑھانے کی کوشش
پچھلے ہفتے کرنسی ڈیلرز نے ڈالر 251 روپے پر بیچنے کی پیش کش کی تھی۔ اگر حکومت نے اس ریٹ پر ڈالر خرید کر 228 کے حساب سے استعمال کرنا ہے تو یہ ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
کیا یہ زیادہ بہتر نہیں کہ حکومت ڈالر ریٹ ہی بڑھا دے۔ دوسری طرف سعودی عرب سے دو ارب اور یو اے ای سے ایک ارب ڈالر مارچ تک کے قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی میں خرچ ہوں گے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈالر ذخائر میں اضافہ عارضی ہو گا اور اس سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات پڑنے کے امکانات کم ہیں۔
سابق حکومتی مشیر ڈاکٹر فرخ سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈالر ذخائر کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتے ہیں لیکن پاکستان جیسے ملک کے لیے یہ زیادہ اہم ہے۔ کہ ڈالر کس ذرائع سے اور کیوں آ رہے ہیں؟
اگر قرض کی مد میں آئی ایم ایف سے ڈالر مل رہے ہیں تو ان سے 15 سے 20 دن بہتر گزریں گے اور پھر حالات خراب ہونا شروع ہو جائیں گے۔
قرض ملنے سے پہلے سٹاف لیول معاہدہ اور ایگزیکٹیو بورڈ کی میٹنگ میں منظوری ہوتی ہے۔ پھر پاکستان کو قرض ملتا ہے۔
ابھی تو سٹاف لیول معاہدہ ہی نہیں ہوا اور ایگزیکٹیو بورڈ کی میٹنگ کا بھی کچھ علم نہیں، اس لیے فوری ڈالر ملنے کی امید نہیں۔
سعودی عرب سے آمد
اسحاق ڈار صاحب نے نومبر میں کہا تھا کہ ایک دو ہفتوں میں سعودی عرب سے ڈالر آ جائیں گے لیکن جنوری ختم ہونے کو ہے اور ڈالر نہیں آئے۔
برآمدات سے ڈالر بڑھنے کی امید بھی نہیں ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک کو چاہیے تھا۔ کہ عوام کو بتاتے کہ اگلے ہفتے کہاں سے ڈالر آ جائیں گے۔
پہلے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی چھتری کے بغیر قرض نہیں دیتے تھے لیکن اب امیر ممالک بھی آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر قرض نہیں دے رہے۔
وہ بھی آرٹیکل فار کنسلٹیشن کے تحت کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ آرٹیکل فار کنسلٹیشن صرف آئی ایم ایف کے پاس ہے جس کے تحت وہ تمام بڑے مالیاتی اداروں کے ساتھ رابطے میں رہتا ہے۔ اور طے کرتا ہے کہ کس ملک کو قرض دینا چاہیے اور کسے نہیں۔
اس مسئلے کا صرف ایک ہی حل ہے کہ برآمدات بڑھائیں اور درآمدات گھٹائیں۔ اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے انڈپیندنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی معلومات کے مطابق ابھی تک آئی ایم ایف سے معاملات طے نہیں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ ڈالر آنا تو دور کی بات ہے، اگر قرض مل بھی گیا۔ تو حالات ٹھیک ہونا مشکل ہیں۔ پاکستان قرضوں کے بوجھ میں بری طرح پھنس چکا ہے۔
منی چينجرز کا موقف
آئی ایم ایف کی قسط کوئی تبدیلی نہیں لائے گی۔ اس بات کی بھی گارنٹی نہیں۔ کہ آئی ایم ایف کے بعد ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک بھی قرض دیں یا نہیں۔
پچھلی قسط ملنے کے بعد ورلڈ بینک اور دوست ممالک سے مطلوبہ رسپانس نہیں ملا تھا اور ریٹنگ مزید نیچے گر گئی تھی۔
کرنسی ایکسچیبج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنزل سیکریٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو ۔کو بتایا کہ پاکستانی معیشت جس نحج پر پہنچ چکی ہے۔ وہاں اگر 10 ارب ڈالر بھی مل جائیں۔ تو مسائل حل نہیں ہوں گے۔ کیونکہ پاکستان کے قرضے 130 ارب ڈالر تک۔ پہنچ چکے ہیں۔
سالانہ 35 ارب ڈالرز قرض ادا کرنا ہوتا ہے۔ برآمدات تقریباً 30 ارب ڈالر اور درآمدات تقریباً 80 ارب ڈالر ہیں۔ اس فرق میں جتنے بھی ڈالر جھونک دیے جائیں کم ہیں۔
یہ فرق کم کرنا ہو گا۔ اگر نہ کر سکے تو آنے والے دن مزید مشکلات لے کر آئیں گے۔ کیونکہ ڈالر میں اضافہ عارضی ہے۔
ماہر معاشیات کی رائے کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ کہ ڈالر ذخائر بڑھنے سے بھی مستقبل قریب میں پاکستان کے مسائل کم نہیں گے۔