ملک میں حالیہ معاشی بحران اور کاروبار کی بڑھتی ہوئی لاگت کی وجہ سے پاکستان کی دوسری بڑی سیلولر کمپنی ’ٹیلی نار‘ کی فروخت کے لیے اماراتی کمپنی کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے۔ مطابق ٹیلی نار پاکستان اپنے آپریشن فروخت کرنے کے لیے امارات میں قائم ملٹی نیشنل ٹیلی کام کمپنی سے بات چیت کررہا ہے۔
ٹیلی نار پاکستان کے ترجمان نے جاری مذاکرات۔ میں ہونے والی پیش رفت پر بات کرنے سے انکار کردیا۔ تاہم اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ٹیلی نار اور امارات کمپنی کے درمیان بات چیت کا عمل حتمی مراحل میں پہنچ چکا ہے۔
وزارت آئی ٹی میں باخبر ذرائع نے تفصیلات بتانے سے انکار کرتے ہوئے۔ اس بات کی تصدیق کی کہ دونوں کمپنیوں کے درمیان ہونے والے معاہدے پر کام جاری ہے۔
امریکی ٹیلی ویژن نیٹ ورک بلوم برگ کی گزشتہ ماہ نومبر کی رپورٹ کے مطابق ناروے کی ٹیلی کام کمپنی اپنے سٹی گروپ کے تعاون سے کمپنی کو فروخت کرنے کی غرض سے بولی کا آغاز کرے گی۔
لیکن صنعتی ذرائع کے مطابق ناروے کی کمپنی نے کاروبار فروخت کرنے کے لیے۔ ایک نہیں بلکہ دو معروف ملٹی نیشنل انویسٹمنٹ بینکوں سے رابطہ کیا تھا۔
سرمایہ کاری کرنے کے لیے کاروباری ماحول مشکل
ذرائع نے بتایا کہ اماراتی کمپنی پاکستان میں ٹیلی کام کے تقریباً تمام اہم شعبوں میں نمایاں مقام رکھتی ہے اور اپنی پوزیشن مزید مستحکم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
فروخت کی وجہ کاروبار کی بڑھتی ہوئی لاگت کو قرار دیتے ہوئے ذرائع نے بتایا۔ کہ امریکی ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کی وجہ سے کمپنی کو نقصان ہوا۔
کمپنی کی آپریشنل لاگت 55 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ اس لاگت کا سب سے بڑا حصہ بجلی کی قیمتوں پر خرچ ہوا، دستاویزات کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران انفراسٹرکچر کو برقرار رکھنے کے لیے کمپنی نے 17 لاکھ ڈالر بجلی کے بل کی مد میں ادا کیے۔
اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے۔ کہ یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ کہ ٹیلی نار پاکستان نقصانات کو کم کرنے کے لیے غور کرے گی۔ کمپنی کے نقطہ نظر کے مطابق ٹیلی نار اپنا کاروبار وہاں کرے گا۔ جہاں کاروبار کے امکانات پاکستان کے مقابلے زیادہ وسیع اور بہتر ہوں۔
کمپنی نے ایک ارب سے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی آفر کی لیکن جو کمپنی ٹیلی نار میں دلچسپی رکھتی ہے وہ 78 کروڑ سے 91 کروڑ ڈالر کے درمیان رقم کی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔
ریگولیٹری مشکلات
ماہرین نے اس بات سے اتفاق کیا کہ شعبہ ٹیلی کام بالخصوص سیلولر انڈسٹری کے لیے کاروباری ماحول کافی مشکل ہوگیا ہے، صنعت بحال کرنے کے لیے حکومت اور اس کے ریگولیٹری نظام کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جو گزشتہ چند برسوں سے رُکا ہوا ہے۔
ٹیلی کام پالیسی اور ریگولیشن کے انٹرنیشنل کنسلٹنٹ پرویز افتخار کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں چیزیں بہتر نہیں تھیں تاہم حال ہی میں امریکی ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر نے صورتحال کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔
پرویز افتخار کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں پاکستان میں فی صارف آمدن بہت کم ہے۔ جس کا مطلب ہے۔ کہ سیلولر سروس کی لاگت دیگر ممالک کے مقابلے پاکستان میں سب سے کم ہے، سیلولر کنندگان کے لیے یہ مارکیٹ انتہائی پُرکشش ہے کیونکہ یہاں ترقی کے وسیع تر مواقع موجود ہیں۔
ٹیلی کام پالیسی اور ریگولیشن کے انٹرنیشنل کنسلٹنٹ کا کہنا تھا۔ کہ کچھ ریگولیٹری مشکلات ہیں۔ جس کی وجہ سے ٹیلی کام کے شعبے کو آپریٹ کرنے میں دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ مثال کے طور پر درآمدی آلات میں ڈالر خرچ کرنے کے علاوہ حکومت نے اسپیکٹرم کی قیمتوں کو ڈالر کی قیمت سے منسلک کردیا ہے۔ جس کے نتیجے میں کاروبار کی لاگت میں اضافہ ہورہا ہے۔
ملک میں اب بھی بہتری کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کمپنیاں سرمایہ کاری نہیں کررہیں۔