عمران خان کو ’چھکا مارنے کا چیلنج‘ دینے والے عبدالقادر جو کئی لیگ سپنرز کے استاد بنے

عمران

1978 کا دورۂ پاکستان انگلش کرکٹ کے لیے عبدالقادر کا تعارف تھا۔ حیدر آباد میں اپنے دوسرے ہی ٹیسٹ میچ میں چھ وکٹیں لے کر انھوں نے انٹرنیشنل سٹیج پہ اپنی آمد کا اعلان کر دیا۔

سابق انگلش کپتان گراہم گوچ نے ان کے بارے میں لکھا کہ ’انھیں سمجھنا ایک بات ہے، انھیں کھیلنا بالکل ہی کوئی اور معاملہ ہے۔‘

بلے باز ہی نہیں، امپائرز بھی ان کی گیندوں کی چال سمجھنے سے قاصر تھے۔

سابق چیف سلیکٹر اقبال قاسم کے مطابق ’انھیں پتا تھا. کہ انگلش امپائرز بھی انھیں پڑھنے میں اتنے ہی ماہر تھے جتنے انگلش بلے باز۔

’اس لیے وہ گیند پھینکنے سے پہلے امپائر کو بتا دیتے تھے. کہ اب وہ گوگلی پھینکیں گے یا یا فلپر۔‘

’لگے گی نہیں، پر ہو گی وہ بھی گوگلی ہی‘

نامور انگلش بلے باز گراہم گوچ نے عبدالقادر کو اپنے کیریئر کے سب سے مشکل بولرز میں شمار کیا۔ ’وہ (پہلے) ایک ایسی گوگلی پھینکیں گے جسے آپ سمجھ سکیں۔ پھر وہ ایک ایسی گیند کریں گے جس پہ آپ کو گوگلی کا شبہ تو ہو مگر آپ اسے یقینی طور پہ (گوگلی) کہہ نہ سکیں۔

’اور پھر وہ ایک ایسی گیند پھینکیں گے کہ آپ بالکل ہکا بکا رہ جائیں۔ مگر ہوگی دراصل وہ بھی ایک اور (قسم کی) گوگلی ہی۔‘

انگلش کرکٹ کمنٹیٹر سر ڈیوڈ گاور اپنے عہد کے نمایاں ترین بلے بازوں میں سے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’بہترین (سپنر) جس کا میں نے کبھی سامنا کیا، وہ عبدالقادر تھے جو کئی بار مجھے الجھائے رکھتے تھے۔

’یہ دراصل ان کے لیے بہت فخر کا باعث تھا کہ وہ اپنی دو گوگلیوں میں سے کم از کم ایک اتنی مبہم رکھتے تھے. کہ وہ ناقابلِ شناخت رہتی تھی۔‘

’پاکستان میں میرے سکورز کو دیکھیں تو یا میں واقعی اچھا کھیل رہا تھا۔ یا پھر میری قسمت بہت ہی عمدہ تھی کہ بہت سی گیندوں پہ خطا کھانے اور چُوکنے میں کام آئی۔‘

27 برس کی عمر میں ریٹائرمنٹ پر غور، پھر عمران خان کپتان بنے

گو کہ حیدر آباد ٹیسٹ میں بہترین کارکردگی کے ساتھ ساتھ 1978 کے سیزن میں وہ سب سے کامیاب بولر تھے مگر اگلے ہی برس پاکستان کا دورۂ انگلینڈ عبدالقادر کے کیریئر پہ بھاری ثابت ہوا۔ جب انجریز سے لڑتے اور انگلینڈ کی سیمنگ کنڈیشنز سے بالکل نامانوس عبدالقادر وکٹوں کی کھوج میں مایوسیاں دیکھتے رہے۔

حسبِ توقع وہ ٹیم سے ڈراپ ہوئے. اور اگلے چار برس ٹیم سے باہر رہے۔

پاکستان کے کرکٹ کلچر میں کوئی انہونی نہ ہوتی اگر عبد القادر کی کہانی یہیں ختم ہو جاتی۔

27 برس کی عمر میں ہی وہ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ پہ غور کر رہے تھے کہ اچانک ان کی قسمت پلٹ گئی جب عمران خان نے پاکستان کی کپتانی سنبھالی۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.