سوات پریس کلب کے ہال میں سوات قومی جرگے کے اکابرین اور مختلف طبقہ فکر کے لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہے۔ برستی بارش میں بھی بہت سے لوگ انھیں سننے کے لیے یہاں آئے ہیں۔ سٹیج پر ایک کے بعد دوسرا شخص اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہے۔ اندر جگہ کم پڑنے کی وجہ سے بہت سے لوگ باہر راہداری میں ہی بیٹھ گئے ہیں۔
مقررین میں سے ایک نے کہا ’اب 2006 نہیں 2022 ہے۔ سوات کے عوام کو اس بار کوئی بے وقوف نہیں بنا سکتا۔‘
جرگے کے اکابرین نے اپنی گفتگو میں وادی سوات کے علاقے مٹہ میں ڈی ایس پی کے زخمی ہونے، فوجی افسر اور ساتھیوں کے ساتھ یرغمال بننے، طالبان کی مبینہ ویڈیوز اور انٹرویوز اور علاقے میں طالبان کی جانب سے مبینہ طور پر لگان اور بھتے کے مطالبات کا تذکرہ بھی کیا۔
’ماضی میں ہمارے ساتھ جو ڈرامے کیے گئے ہیں ہم مزید انھیں برداشت نہیں کریں گے اور نہ ہم دوبارہ آئی ڈی پیز بنیں گے۔‘
اس بیٹھک کو سوات قومی کانفرنس کا نام دیا گیا جو تین گھنٹے تک جاری رہی۔ مختصر اعلامیے میں کہا گیا کہ امن کی ذمہ داری حکومتی اداروں کی ہے لیکن ریاست ناکام ہے اور ہمیں اس پر تشویش ہے، اس بار ہم کسی قیمت پر اپنے گھر بار نہیں چھوڑیں گے۔
اعلامیے میں حکومت پر الزام عائد کیا گیا کہ ’پچھلی مرتبہ سارا معاملہ ریاستی سرپرستی میں ہوا۔‘
پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے
خیال رہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز، چاہے وہ پولیس ہے یا فوج، نے زخمی ڈی ایس پی اور میجر سمیت ان کے ساتھیوں کی بازیابی کے واقعے پر کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں اور بس یہی کہنے پر اکتفا کیا کہ ’وہ دہشت گرد ہیں، مسلح افراد ہیں، بظاہر افغانستان سے آئے تھےاور اپنے آبائی علاقے میں بسنا چاہتے تھے۔‘
پاکستانی فوج نے واقعے کے پانچ روز بعد اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ سوشل میڈیا پر یہ خبر کہ سوات کی وادی میں ٹی ٹی پی کے مسلح افراد کی بڑی تعداد موجود ہے، مبالغہ آرائی اور گمراہ کن ہے۔
سوات پريس کلب ميں کانفرنس
پریس کلب کے ہال میں ہونے والی کانفرنس میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ ’سوات میں اب عدم استحکام اور غیر یقینی پیدا کی جا رہی ہے، دہشت گردوں نے کہا کہ ہم امن معاہدے کے تحت آئے ہیں، اس پر لوگوں میں بہت تشویش پائی جاتی ہے، ہم علاقے میں امن چاہتے ہیں۔‘
یہیں موجود ڈاکٹر امجد خان نے کہا کہ ’لوگوں نے اپنا ردعمل دیا ہے۔ اب اگر وہ لوگوں کے بغیر معاہدے کریں گے تو لوگ اسے قبول نہیں کریں گے۔ پہلے بھی سنہ 2008 میں مسئلہ پیدا ہوا تھا،۔ پہلے طالبان کو یہاں سوسائٹی میں حمایت تھی لیکن اب لوگوں کو پتا چل گیا ہے کہ جو امن ہم نے حاصل کیا ہے۔ اگر اس کو کسی نے پامال کرنے کی کوشش کی تو سخت مزاحمت کریں گے۔ اور حالیہ مظاہرے اس کا ثبوت ہیں۔‘
سوات قومی جرگے کے رکن اور ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر زاہد خان، جو خود بھی طالبان کا نشانہ بنے تھے۔ کا کہنا ہے کہ ’ایک ایسا علاقہ جہاں لوگوں کے گھر تباہ کیے گئے ہوں۔ گھر والوں کو مارا گیا ہو، لوگوں کو بھتہ دینے کے خط دیے جا رہے ہوں، وہاں اگر پولیس ڈی ایس پی زخمی ہوتا ہے۔ تو یہ سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے۔‘
طالبان کی واپسی کی خبریں
سوات میں طالبان کی واپسی کی خبریں لوگوں نے ایک دوسرے سے سوشل میڈیا پر شیئر کیں۔
لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ مٹہ تو وزیر اعلٰی محمود خان کا حلقہ ہے۔ پھر وہ خاموش کیوں ہیں؟ ملک کا میڈیا کیوں خاموش ہے؟
شائستہ حاکم ان صحافیوں میں شامل ہیں۔ جنھوں نے سوشل میڈیا پر اس واقعے کو رپورٹ کیا، ہوٹل کی لابی میں مجھ سے ملاقات میں انھوں نے بتایا بطور صحافی تو مجھے کچھ خوف نہیں، ہاں گھر والے اور دوست احتیاط برتنے کو کہتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ایک دو مہینے پہلے ہی یہ خبریں گردش کر رہی تھیں۔ کہ طالبان آئے ہیں تصاویر شیئر ہو رہی تھیں۔ اور کہا جا رہا تھا۔ کہ یہ آپ دیکھیں تو بتائیں۔ ابھی یہ خبریں چل ہی رہی تھیں۔ کہ ڈی ایس پی کا واقعہ ہوا اور لوگوں میں خوف پیدا ہو گیا، لوگ کہنے لگے کہ کیا پھر وہی حالات پیدا ہوں گے۔ کیا ہم پھر سے گھروں میں بیٹھ جائیں گے۔‘
وہ کہتی ہیں طالبان کے قبضے کے دوران وہ منگورہ کے ہوسٹل میں رہ رہی تھیں۔ اور طالبان کا سلسلہ ان کے گاؤں کے تھوڑا آگے گٹ پیوچار سے شروع ہوا۔
’بطور صحافی میں تو نہیں ڈرتی لیکن میرے دفتر کی لڑکیاں کہتی ہیں کیا پھر ہمیں دفتر جانے دیا جائے گا یا نہیں، پھر سے ہم شٹل کاک پہنیں گے۔ ہاں یہ ہے کہ ہم نے اس بار خود طالبان کو یہاں (شہر میں) نہیں دیکھا۔‘
سوات کے لوگ اپنی سرحد سے جڑے ضلع دیر کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ کہ طالبان افغانستان جانے کے لیے دیر کا راستہ ہی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن گذشتہ 20 دن میں دیر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو دیکھتے ہوئے سوات کے لوگوں کو یہ اطمینان ضرور ہے۔ کہ طالبان کی ان کی اپنی شرائط پر واپسی عملی طور پر ممکن ہونا مشکل ہے۔