31 مئی 1984 کو ویسٹ انڈیز نے انگلینڈ کے خلاف پہلے ون ڈے انٹرنیشنل میں بیٹنگ شروع کی تو اولڈ ٹریفرڈ میں موجود تماشائیوں کو ایسا محسوس ہوا کہ ایک سال پہلے ورلڈ کپ فائنل کی شکست ابھی تک ویسٹ انڈین ٹیم کو جکڑے ہوئے ہے۔ دونوں اوپنرز ڈیسمنڈ ہینز اور گورڈن گرینج اور پھر رچی رچرڈسن آؤٹ ہوئے تو سکور بورڈ صرف 43 رنز دکھا رہا تھا۔
سر ویوین رچرڈز کریز پر آ چکے تھے لیکن دوسرے اینڈ پر ایک کے بعد ایک وکٹ گرنے کا سلسلہ رک نہیں رہا تھا۔ ویوین رچرڈز کو ایک ایسے پارٹنر کی تلاش تھی جو کچھ دیر وکٹ پر رک جائے تاکہ وہ اپنے روایتی انداز میں کھیلتے ہوئے ٹیم کو مشکل سے نکال سکیں لیکن لیری گومز، کپتان کلائیو لائیڈ، جیفری ڈوجون اور میلکم مارشل میں سے کوئی بھی ڈبل فگرز میں نہ آ سکا۔
ویوین رچرڈز نے ایلڈین بیپٹسٹ کے ساتھ آٹھویں وکٹ کی شراکت میں 59 رنز جوڑے لیکن اصل کہانی اس وقت شروع ہوئی جب جوئیل گارنر کے آؤٹ ہونے کے بعد آخری بیٹسمین مائیکل ہولڈنگ کریز پر آئے جس کے بعد ون ڈے انٹرنیشنل کی تاریخ کا نیا باب رقم ہوا۔
مائیکل ہولڈنگ نے کریز پر آ کر ویوین رچرڈز سے کہا ’اسموکی ہم اب کیا کرنے والے ہیں؟‘
ویوین رچرڈز نے جواب دیا ’دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے تم بس کھیلتے رہو۔‘
ہولڈنگ نے کہا ’میں اپنی پوری کوشش کروں گا۔‘
رچرڈز کہتے ہیں ’اب کوئی وکٹ باقی نہیں تھی لہذا میں نے زوردار چھکے لگانے شروع کر دیے۔ ہر چیز ٹھیک دکھائی دے رہی تھی اور ہم سکور کو دو سو تک لے گئے۔ یہ اس طرح کی اننگز تھی جن سے منسلک ہونا مجھے ہمیشہ سے پسند رہا ہے۔ یہی تو چیلنج ہوتا ہے جب لوگ آپ کو رد کر چکے ہوتے ہیں۔‘
رچرڈز کہتے ہیں ’جب ہم دو سو بیس تک پہنچ گئے تو مجھے اطمینان ہوگیا کہ ہمارے پاس ایسے بولرز ہیں جو ہمیں جتوا سکتے ہیں۔ ہولڈنگ نے ایک اینڈ خوب سنبھالا اور ہم نے آخری وکٹ کی شراکت میں 106 رنز بنا ڈالے جو ون ڈے انٹرنیشنل میں آخری وکٹ کی سب سے بڑی پارٹنرشپ بھی ہے۔‘
ویوین رچرڈز نے اس شراکت میں بننے والے 106 رنز میں سے 94 رنز بنائے تھے۔ انھوں نے 170 گیندوں کا سامنا کیا تھا اور 189 رنز ناٹ آؤٹ کی اس اننگز میں 21 چوکے اور 5 چھکے شامل تھے۔ ویسٹ انڈیز نے 55 اوورز میں 9 وکٹوں پر 272 رنز بنائے تھے اور یہ میچ 104 رنز سے جیت لیا تھا۔
ویوین رچرڈز کی 189 رنز کی اس اننگز کو وزڈن نے ون ڈے انٹرنیشنل کی تاریخ کی بہترین اننگز قرار دیا تھا۔
یہ اس وقت ون ڈے انٹرنیشنل کی تاریخ کی سب سے بڑی انفرادی اننگز کا عالمی ریکارڈ بھی تھا۔ انھوں نے ایک سال قبل بننے والے کپل دیو کے 175 رنز کا ریکارڈ توڑا تھا۔ ویوین رچرڈز کی اس اننگز کے بعد اگرچہ رنز کے اعتبار سے ان سے گیارہ بڑی اننگز ون ڈے انٹرنیشنل میں کھیلی جا چکی ہیں مگر 189 رنز کی اُن کی اننگز کئی اعتبار سے منفرد خیال کی جاتی ہے۔
رچرڈز واقعی ایک بے رحم بیٹسمین
ویوین رچرڈز کو اپنے بین الاقوامی کریئر میں 189 کے علاوہ دیگر دو اننگز بہت زیادہ پسند ہیں۔
ان میں سے ایک 138 رنز ناٹ آؤٹ ہے جو انھوں نے انگلینڈ ہی کے خلاف 1979 کے ورلڈ کپ کے فائنل میں لارڈز میں کھیلی تھی۔ اس وقت بھی ویسٹ انڈین ٹیم مشکلات سے دوچار تھی اور ننانوے پر چار وکٹیں گر چکی تھیں۔ ایسے میں کالس کنگ نے ان کا زبردست ساتھ دیتے ہوئے 86 رنز بنائے تھے اور رچرڈز کی محتاط ہو کر کھیلنے کی تمام تر ہدایات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انگلش بولنگ کو تہس نہس کر دیا تھا۔
رچرڈز کو اس اننگز کا وہ چھکا کبھی نہیں بھولتا جو انھوں نے ویسٹ انڈیز کی اننگز کی آخری گیند پر مائیک ہینڈرک کو مارا تھا جس کے بارے میں وہ کہتے ہیں ’وہ خراب گیند نہیں تھی لیکن میں نے اپنی پوزیشن کو آف سائیڈ پر کر کے لیگ سائیڈ پر فلک کیا تھا اور گیند تماشائیوں میں جا گری تھی۔ میں یہ سوچتے ہوئے پویلین کی طرف واپس جا رہا تھا کہ یہ شاٹ درحقیقت میری اختراع تھی۔‘
ویوین رچرڈز کو اپنی 181 رنز کی اننگز بھی بہت پسند ہے جو انھوں نے 1987 کے عالمی کپ میں سری لنکا کے خلاف کراچی میں کھیلی تھی۔
ایک ہی میچ میں تین بار صفر پر آؤٹ
سرویوین رچرڈز نے اپنی سوانح میں لکھا ہے کہ ان پر یکطرفہ سوچ رکھنے والے ضدی شخص ہونے کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ اس بارے میں وہ کہتے ہیں کہ انھیں اس کا خمیازہ اس وقت ہی بھگتنا پڑا تھا جب ان کا کریئر شروع ہوا تھا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ ویوین رچرڈز کو سترہ سال کی عمر میں لیورڈ آئی لینڈ کے ٹورنامنٹ میں انٹیگا کی ٹیم کی طرف سے کھیلنے کا پہلی بار موقع ملا تھا۔ پورے جزیرے میں جوش وخروش تھا کہ ایک نوجوان کرکٹر یہ میچ کھیل رہا ہے، ہر کوئی رچرڈز کے ٹیلنٹ کی بات کر رہا تھا۔ مقامی سکولوں میں آدھے دن کی چھٹی دے دی گئی تھی کہ طالبعلم بھی گراؤنڈ میں جا کر یہ میچ دیکھ سکیں۔
پہلی اننگز میں رچرڈز کو پہلی ہی گیند پر شارٹ لیگ پر کیچ آؤٹ قرار دے دیا گیا، انھیں یقین تھا کہ گیند بلے کے بجائے پیڈ پر لگی تھی لہذا انھوں نے غصے میں پیر پٹخے اور اپنا بیٹ پیڈ پر دے مارا۔ اسی دوران تماشائیوں نے میدان میں آ کر ہنگامہ کر دیا کہ رچرڈز نہیں تو میچ بھی نہیں۔ کھیل رک گیا اور منتظمین نے سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ رچرڈز کو دوبارہ بیٹنگ دی جائے۔
ویوین رچرڈز کہتے ہیں ’اس فیصلے کے بعد تماشائیوں نے میدان خالی کر دیا لیکن مجھے اس فیصلے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ میں دوبارہ صفر پر اسٹمپڈ ہو گیا۔‘
دوسری اننگز میں بھی قسمت ویوین رچرڈز سے روٹھی رہی اور وہ بغیر کوئی رن بنائے کیچ ہو گئے۔
رچرڈز کہتے ہیں ’ایک ہی میچ میں کوئی بیٹسمین تین بار صفر پر آؤٹ ہوا ہو یہ یقیناً ورلڈ ریکارڈ ہی ہوگا۔ یہ بات میرے لیے شرمندگی کا باعث تھی کہ وہی لوگ جو آوازیں لگا رہے تھے رچرڈز نہیں تو میچ بھی نہیں وہ اب میرے خلاف ہوگئے تھے۔ لیکن سب سے بڑی خفت اس وقت ہوئی جب انتظامیہ نے سپورٹس مین شپ متاثر کرنے کی حرکت کی پاداش میں مجھ پر دو سال کا پابندی عائد کر دی۔ یہ فیصلہ انہی لوگوں نے سنایا تھا جنھوں نے مجھے غلط آؤٹ دیے جانے پر دبارہ بیٹنگ کے لیے بھیجا تھا۔‘
رچرڈز کہتے ہیں ’پابندی مجھ پر لگی تھی لیکن سزا میرے گھر والوں کو بھگتنی پڑی تھی کیونکہ لوگ میرے گھر کے قریب سے گزرتے ہوئے نامناسب فقرے کستے تھے۔‘
حساب میں صرف رنز گننے میں ماہر
ویوین رچرڈز نے اپنی کتاب میں لکھا ہے ’میں نے دو سال کی پابندی کے دنوں میں فٹبال کھیلی اور باکسنگ کا شوق بھی پورا کر کے دیکھ لیا، لیکن کم عمری سے ہی کرکٹ میری زندگی پر حاوی رہی۔ کھیل میں غیرمعمولی دلچسپی کی وجہ سے میری تعلیم متاثر ہوئی جس کا مجھے افسوس ہے۔‘
رچرڈز کہتے ہیں ’میں حساب کے مضمون میں اچھا نہیں تھا، ماسوائے اپنے ہی بنائے ہوئے رنز کی درست گنتی کرنا۔ البتہ میں تاریخ اور جغرافیہ میں اچھا تھا۔ اگر میں کرکٹر نہ ہوتا تو شاید تاریخ دان ہوتا یا پھر پادری۔‘
بیٹنگ گلووز کا تحفہ
ویوین رچرڈز وہ لمحہ نہیں بھولتے جب انٹیگا کے ایک بزنس مین چارلی ہینری نوجوان کھلاڑیوں کا گروپ باربیڈوس لے گئے تھے تاکہ یہ نوجوان کرکٹرز ویسٹ انڈیز اور نیوزی لینڈ کا برج ٹاؤن ٹیسٹ میچ دیکھ سکیں۔
ویوین رچرڈز نے اس میچ میں نہ صرف سرگیری سوبرز کو سنچری بناتے دیکھا بلکہ کھیل کے اختتام پر ڈریسنگ روم میں ان کی ملاقات سرگیری سوبرز سے کرائی گئی۔
ویوین رچرڈز کو زیادہ خوشی لارنس روو سے مل کر ہوئی تھی جنھوں نے رچرڈز کو اپنے بیٹنگ گلووز تحفتاً دیے تھے۔
رچرڈز کہتے ہیں ‘میں انھیں یہ نہیں بتا سکا کہ میں نے انہی کا نام ’یاگا‘ اپنا رکھا ہے اور انٹیگا والے مجھے ’یاگا‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔
یہ ویوین رچرڈز کہاں ملیں گے؟
ویوین رچرڈز کے کریئر میں اہم موڑ اس وقت آیا جب کینٹ کاؤنٹی کی ٹیم ویسٹ انڈیز کھیلنے گئی تھی جہاں ایک میچ میں نوجوان ویوین رچرڈز کو کھیلتا دیکھ کر سر کالن کاؤڈرے نے کرکٹر میگزین میں ان کے ٹیلنٹ کی تعریف کی تھی۔
یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ سمرسٹ کاؤنٹی کے وائس چیرمین لین کریڈ کسی ٹیم کے ساتھ انٹیگا پہنچے تھے اور ایک ٹیکسی ڈرائیور ِولی سے پوچھا تھا کہ ویوین رچرڈز سے کہاں اور کیسے ملاقات ہو سکتی ہے؟ ڈرائیور انھیں ہوٹل چھوڑ کر سیدھا اس گراؤنڈ میں آیا تھا جہاں رچرڈز میچ کھیل رہے تھے اور لین کریڈ سے ملاقات کے لیے لے گیا۔
رچرڈز کا انگلینڈ پہنچنا بھی دلچسپ واقعہ ہے۔ لین کریڈ انھیں ٹرائلز کے لیے انگلینڈ تو لے گئے لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ کسی بھی کرکٹر کے لیے ورک پرمٹ ضروری ہوتا ہے اور ویوین رچرڈز کو لندن ایئرپورٹ پر گھنٹوں پریشانی میں گزارنے پڑے تھے جس کے بعد انھیں تین ہفتے انگلینڈ میں رہنے کی اجازت کے ساتھ باہر جانے دیا گیا۔
انگلینڈ میں لینس ڈاؤن کلب کی طرف سے کھیلنے کے ساتھ ساتھ وہ اسسٹنٹ گراؤنڈزمین کا کام بھی کر رہے تھے جس پر انھیں یومیہ ایک پاؤنڈ ملتا تھا اور جب انھوں نے پہلی بار سمرسٹ کی نمائندگی کی تو انھیں دو ہزار پاؤنڈ کا کنٹریکٹ آفر کیا گیا تھا۔
لیور پول فٹبال ٹیم کے مداح
رچرڈز نے اپنی کتاب میں لکھا ہے ’جب میں انگلینڈ پہنچا تو ابتدائی چند برسوں میں مجھے انگلش فٹبال سے پیار ہوگیا تھا۔ لیورپول کی ٹیم نے مجھے سب سے زیادہ متوجہ کیا تھا۔ مجھے اس کا سٹائل بہت پسند تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ کوئی ٹیم میدان میں کھیل رہی ہے۔ اس زمانے میں مجھے ٹامی سمتھ، فل تھامسن، سٹیو ہیوے، جان توشیک اور ایملن ہیوز پسند تھے۔ جیراڈ ہولیئر کی نگرانی میں اس ٹیم میں نیا جوش و ولولہ پا لیا تھا۔‘
نسلی تعصب کا شکار
متعدد دیگر سیاہ فام کرکٹرز کی طرح ویوین رچرڈز کو بھی اپنے کریئر کے دوران آسٹریلیا اور انگلینڈ میں نسلی تعصب پر مبنی فقروں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
وہ جب سمرسٹ کاؤنٹی کی طرف سے ووسٹر شائر کے خلاف کھیل رہے تھے تو کچھ تماشائیوں نے انھیں سیاہ فام کے طعنے دینے کے ساتھ ساتھ گالی دینی شروع کر دی۔ یہ سلسلہ جب بڑھتا گیا تو رچرڈز سے نہ رہا گیا اور وہ ان تماشائیوں کی طرف دوڑ پڑے اور انھیں کہنے لگے کہ یہاں بچے اور فیملیز بھی موجود ہیں۔
’ٹھیک ہے تم لوگ مجھے کالا کہہ رہے ہو لیکن گالی دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس دوران پولیس آ گئی اور ان لوگوں کو لے گئی۔‘
بیٹنگ کی طرح تیز ڈرائیونگ
تیز ڈرائیونگ ویوین رچرڈز کی کمزوری رہی ہے۔ ایک مرتبہ کوئنز لینڈ میں پارٹی کے بعد گھر واپس جاتے ہوئے خالی سڑک دیکھ کر انھوں نے گاڑی کی رفتار تیز کر دی جس پر پولیس کی کار نے ان کا تعاقب کر کے روک لیا۔ پولیس افسر نے رچرڈز کو پہچان لیا اور رفتار کم کرنے کی تاکید کر کے چھوڑ دیا۔ رچرڈز نے سوچا کہ اب دوبارہ انھیں کون روکے گا لیکن جیسے ہی سپیڈ تیز کی پولیس کار دوبارہ آ گئی اور وہ دھر لیے گئے۔
انگلینڈ میں اسی طرح تیز رفتاری سے گاڑی چلانے پر پولیس افسر نے انھیں روک کر کہا کہ اگر اس کے والد جوئیل گارنر اور آپ کے مداح نہیں ہوتے تو وہ چالان کر دیتا۔
ویوین رچرڈز کو اس وقت انگلینڈ کے کسٹم اینڈ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے چار ہزار پاؤنڈ جرمانے کا جھٹکا برداشت کرنا پڑا تھا، جب انھوں نے ایک ایسی کار خریدی جسے وہ انٹیگا لے جا سکتے تھے لیکن انگلینڈ میں نہیں چلا سکتے تھے لیکن وہ یہ غلطی کر بیٹھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دو افسر سمرسٹ کاؤنٹی میں ان کے گھر پہنچ گئے اور بتایا کہ ان کی گاڑی ضبط کر لی گئی ہے۔رچرڈز کو گاڑی چھڑانے کے لیے بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑا۔
نینا گپتا کے ساتھ تعلقات
ویوین رچرڈز کی زندگی کا ایک اہم پہلو بھارتی اداکارہ نینا گپتا کے ساتھ تعلقات ہیں جو 1988 میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے دورہ انڈیا میں قائم ہوئے تھے۔دونوں شادی نہ کر پائے کیونکہ رچرڈز پہلے سے شادی شدہ تھے تاہم ان کے تعلقات کے نتیجے میں بیٹی مباسار پیدا ہوئی جو اب ایک فیشن ڈیزائنر ہیں۔
نینا گپتا نے اپنی سوانح میں ویوین رچرڈز کے ساتھ اپنے تعلقات کا ذکر کیا ہے لیکن وہ یہ بھی کہتی ہیں اس محبت کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ اب ان کی خاموشی کا احترام کیا جائے کیونکہ وہ ان حالات کو دوبارہ لکھنا نہیں چاہتی ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے وہ اور ان کی بیٹی ایک بار پھر لوگوں کے نشانے پر آ جائیں گی۔
یاد رہے کہ نینا گپتا نے کئی فلموں اور ٹی وی ڈراموں میں کام کیا ہے لیکن عام فلم بین انھیں فلم ’کھل نائیک‘ کے گانے ’چولی کے پیچھے کیا ہے‘ کی وجہ سے زیادہ پہچانتے ہیں۔
صدی کے پانچ بہترین کرکٹرز
سنہ 2000 میں وزڈن نے ویوین رچرڈز کو صدی کے پانچ بہترین کرکٹرز میں شامل کیا گیا۔ ان کے علاوہ سر ڈان بریڈمین، سرگیری سوبرز، سر جیک ہابس اور شین وارن بھی ان کھلاڑیوں میں شامل تھے۔
سنہ 2002 میں وزڈن نے ویوین رچرڈز کو ون ڈے انٹرنیشنل کی تاریخ کا عظیم ترین بیٹسمین قرار دیا گیا۔
سنہ 1994 میں انھیں کرکٹ میں اعلی خدمات پر آرڈر آف دی برٹش ایمپائر کا اعزاز دیا گیا۔ سنہ 1999 میں وہ سر کے خطاب سے نوازے گئے۔
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ پہلے ہی کھیل چکا
ویوین رچرڈز پاکستان سپر لیگ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مینٹور کی حیثیت سے خاصے مقبول رہے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا آپ کو خیال نہیں آتا کہ آپ نے بھی ٹی ٹوئنٹی کھیلی ہوتی تو ان کا جواب بھی خاصا دلچسپ تھا ’میں نے اپنے کریئر میں جس انداز کی کرکٹ کھیلی وہ اسی انداز سے ملتی جلتی ہے جو آج دنیا ٹی ٹوئنٹی میں دیکھ رہی ہے۔ میں یہ کرکٹ بہت پہلے ہی کھیل چکا۔‘