
اوکاڑہ کے ایک نجی سکول کے پرنسپل کو سکول کی طالبہ سے زیادتی کے چار سال بعد رواں ہفتے 14 سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی گئی۔
اوکاڑہ پولیس کے ترجمان عرفان سندھو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 15 اپریل کو ’مجرم ناصر لطیف کو اوکاڑہ کی خصوصی عدالت اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل). ایکٹ 2021 کے ایڈیشنل سیشن جج شبریز اختر راجہ نے 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی، جرمانہ نہ دینے. کی صورت میں مزید چھ ماہ قید بھگتنا ہو گی۔‘
ترجمان کا کہنا تھا. کہ یہ واقعہ 2021 میں پیش آیا تھا. اور تھانہ صدر رینالہ خورد پولیس نے سکول پرنسپل ناصر کو سکول کی طالبہ سے زیادتی اور ان کی نازیبا ویڈیوز بنانے کے جرم میں گرفتار کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ مجرم جوڈیشل ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کیس میں ملزم کا ڈی این اے بھی متاثرہ لڑکی کے میڈیکل کے بعد میچ کر گیا تھا. جس کے بعد مقدمہ عدالت میں چلتا رہا اور اب عدالت نے اسے سزا سنا دی ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا. کہ اس کیس کی ایف آئی آر متاثرہ لڑکی کی والدہ کی مدعیت میں تھانہ صدر رینالہ خورد میں درج کی گئی جس میں والدہ نے بتایا. کہ ان کی 16 سالہ بیٹی میٹرک کی طالبہ ہے اور ایک نجی سکول میں پڑھتی تھی۔
بیٹی کو نشہ
مقامی پولیس ترجمان کے مطابق ایف آئی آر میں الزام لگایا. کہ سکول کے پرنسپل نے ان کی بیٹی کو نشہ آور چیز کھلا کر ریپ کیا اور ساتھ ہی ان کی نازیبا ویڈیوز اور تصاویر بھی بنا لیں اور انہیں جان سے مار دینے اور ان کی ویڈیوز وائرل کر دینے کی دھمکی دے کر بلیک میل کرتا رہا۔
لڑکی کی والدہ نے یہ بھی بیان دیا کہ جب متاثرہ لڑکی نے یہ بات گھر والوں کو بتائی. تو ناصر نے ان کی ویڈیوز اور تصاویر علاقے کے. لوگوں کو واٹس ایپ گروپس میں شئیر کر دیں۔
پولیس ترجمان کے مطابق اوکاڑہ پولیس نے بتایا کہ ناصر کو 2021 میں طالبہ کے ساتھ زیادتی اور ان کی نازیبا ویڈیوز بنانے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
ایڈوکیٹ احمر مجید کے مطابق ملزم کو سزا خصوصی عدالت سے ہوئی ہے جس کے خلاف ملزم چھ ماہ کے اندر ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر سکتا ہے. اور دو ججوں پر مشتمل ایک. ڈویژنل بنچ اس اپیل کی سماعت کریں گے۔ اس کیس میں جب تک اپیل چلے گی اس دوران ملزم کو ضمانت نہیں مل سکے گی۔
کیا ملزم کی سزا کا معاشرے پر کوئی اثر ہوگا؟
پنجاب یونیورسٹی کے سوشیالوجی کے شعبہ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر رضوان صفدر نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں یہ سزائیں کسی حد تک قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھتی ہیں۔ ارد گرد دنیا بھر میں دیکھیں تو سزا کے ڈر سے لوگ کافی سارے کام نہیں کرتے۔ لیکن مجھے پھر. بھی شک ہے کہ کیا اس سزا سے کوئی بہت بڑی تبدلی یا ایسے. جرائم میں کمی آئے گی؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے کیونکہ آپ کو معاشرتی سطح پر ایسے جرائم کی روک تھام پر کام کرنا ہو گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں یہ نہیں کہوں گا. کہ سزا کا کوئی اثر نہیں ہوتا بالکل ہوتا ہے. ایک رکاوٹ پیدا ہوتی ہے. لیکن لوگ. یہاں تک پہنچتے کیوں ہیں، وہ ایسے کام کرتے کیوں ہیں. اس کو روکنے کے لیے ہمیں معاشرتی سطح پر رویوں میں تبدیلی پر کام کرنا ہو گی۔‘