انڈیا کی ریاست تامل ناڈو میں ایک خاتون گھر میں بچے کو جنم دینے کے بعد بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے چل بسیں۔
ضلع کرشنا گری میں یہ واقعہ یوٹیوب پر ڈیلیوری کی ویڈیوز دیکھنے کے بعد گھر پر ہی زچگی کی کوشش کرنے والی ایک خاتون کے ساتھ پیش آیا۔
دونوں میاں بیوی نے ہسپتال جانے کے بجائے گھر میں زچگی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
دستیاب تفصیلات کے مطابق خاتون متیش کی شادی 2021 میں ہوئی تھی۔ دو روز قبل یعنی منگل کی صبح خاتون کو لیبر پین ہوا اور انھوں نے گھر پر ہی زچگی کی۔
تاہم حکام کے مطابق اس عمل کے دوران خاتون کا بہت زیادہ خون بہہ گیا۔ خاتون نال باہر نہ آنے پر خون بہہ رہا تھا۔ صورتحال کے پیش نظر انھیں ہسپتال لے جایا گیا لیکن ڈاکٹروں نے انھیں مردہ قرار دے دیا۔
اس سلسلے میں ضلعی محکمہ صحت اور پولیس کو مطلع کر دیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور معاملے کی تفتیش جاری ہے۔
گھروں میں زچگیاں اور اموات
صرف تمل ناڈو میں ہی گذشتہ چند برسوں میں گھر. میں بچوں کو جنم دینے کی کوشش کے دوران ماؤں کے مرنے، یا ان کے نوزائیدہ بچوں. کی موت، یا دونوں کے واقعات کی ایک قابل ذکر تعداد سامنے آئی ہے۔
جولائی 2008 میں کریتیکا نامی خاتون نے اپنے شوہر اور شوہر کے دوست کی مدد. سے یوٹیوب ویڈیوز دیکھنے کے بعد گھر ہی میں بچے کو جنم دیا۔ تاہم پیدائش کے بعد خاتون دم توڑ گئیں۔ اس کیس کا مقدمہ درج کر کے خاتون کے شوہر کو گرفتار کر لیا گیا۔
رواں برس اگست میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا گھر پر زچگی کے دوران اور بچے کی پیدائش کے بعد ماں اور بچے میں موجود خوراک کی نال کو باقاعدہ انداز میں نہیں ہٹایا گیا تاہم بعدازاں یہ کام ڈاکٹروں نے کیا اور شوہر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔
اسی طرح جولائی 2021 میں مونیشا حاملہ ہوئیں اور اپنی ماں کے گھر رہیں اور انھوں نے گھر پر بچے کو جنم دیا۔ تاہم زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث بچہ مر گیا. جبکہ بہت زیادہ خون بہنے کی وجہ سے ماں کو تشویشناک حالت میں ہسپتال میں داخل کروایا گیا۔
ریاست میں اسی نوعیت کے واقعات گذشتہ کچھ عرصے میں تواتر سے پیش آئے ہیں۔
کیا ہسپتال میں جو کچھ ہوتا ہے وہ قدرتی پیدائش نہیں ہے؟
تامل ناڈو حکومت کی جانب سے گھر میں بچوں کی پیدائش اور ان سے منسلک خطرات .کو روکنے کے لیے متعدد اقدامات کیے جانے کے بعد بھی اس نوعیت کے واقعات پیش آنے کا سلسلہ جاری ہے۔
پراجیکٹ کمیٹی کے ایک رکن ڈاکٹر امولولپاوناتھن جوزف کا کہنا ہے کہ ایک اچھی حکومت کو خواتین کی فلاح کے لیے سب کچھ کرنا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ ’شادی کے بعد اور حمل کے آغاز سے ہی حکومت عورت کی نگرانی کرتی ہے۔ فوری طور پر عورت کے حمل کو رجسٹر کیا جاتا ہے اور اسے رجسٹریشن نمبر دیا جاتا ہے۔ عورت کو ہر تین ماہ بعد سکین کیا جاتا ہے۔ پہلے سکین کے بعد 8,000 روپے کی مالی امداد دی جاتی ہے۔ اگر خاتون ہیلتھ ورکرز کو بتائے بغیر ڈلیوری. کے لیے اپنی والدہ کے گھر جاتی ہے تو وہاں موجود ہیلتھ ورکرز کو آگاہ کیا جاتا ہے اور ان کی نگرانی کی جاتی ہے۔ پہلی ویکسینیشن کے بعد، باقی فنڈنگ فراہم کی جاتی ہے۔‘