راجہ شیر بابر خان کہتے ہیں کہ میرا تعلق ضلع غذر کی وادی یاسین سے ہے۔ میرے والد صوبیدار میجر ریٹائرڈ تھے۔ میں نے اسی وادی کے وادی مڈل سکول سے مڈل تک پڑھا تھا۔ مڈل کا امتحان دینے کے لیے برفباری میں یہاں سے سو کلو میٹر دور پیدل چل کر گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد میں نے میٹرک گلگت کے ہائی سکول نمبر ون سے کیا تھا۔ جس کے لیے میں روزانہ آتا جاتا تھا۔ اس کے بعد لاہور ایف اے کرنے کے لیے گیا۔ مگر افسوس کہ میں ایف اے نہ کرسکا کیوں نہیں کرسکا یہ میں نہیں بتانا چاہتا۔ مجھے اپنے علاقے میں رہ کر میڑک تک تعلیم حاصل کرنے میں جتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کا اظہار کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتا۔
راجہ شیر بابر خان کہتے ہیں کہ میٹرک کے بعد واپس اپنے علاقے میں آیا تو یہاں کے پرائمری سکول کے لیئے اس وقت استادوں کی آسامیاں آئی ہوئی تھیں۔ آسامی کے لیے امیدوار کم ہی تھے یہاں پر کم ہی لوگ میٹرک تھے۔ میں نے درخواست دی تو فوراً ہی میری تقرری ہوگئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں میٹرک کے بعد لاہور سے گھوم کر آگیا تھا۔ مجھے احساس تھا کہ تعلیم کی اہمیت کیا ہے۔ ملازمت تو علاقے ہی میں مل گئی تھی۔ مگر میں نے اس ملازمت کو اپنا مشن بنا لیا تھا کہ مجھے اپنے اور لوگوں کی قسمت کو تعلیم کے بل بوتے پر تبدیل کرنا ہے۔
میرے سر پر دھن سوار تھی کہ بس دنیا کو تبدیل کرنا ہے۔ یہ کوئی اتنا آسان کام بھی نہیں تھا اور مشکل بھی نہیں۔ مشکل اس لیے کہ اگر فیصلہ کرلیا جائے تو پھر راستے میں ہر رکاوٹ خود بخود دور ہوجایا کرتی ہے۔
چھ بچے اور پانچ سو روپیہ تنخواہ
راجہ شیر بابر خان کہتے ہیں کہ جب میں اپنے پرائمری سکول میں گیا تو وہاں پر صرف چھ بچے تھے۔ میری پہلی تنخواہ پانچ سو روپیہ تھی۔ سکول کی حالت بھی انتہائی خراب تھی۔ دیواریں گرنے والی تھیں۔ طالب علموں کے بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔ کچھ بھی نہیں تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے میں نے سکول کی حالت کو بہتر کرنے پر توجہ دینا شروع کردی تھی۔ اپنی تنخواہ میں سے سب سے سو روپیہ خود چندہ دیا اور پھر لوگوں سے چندہ لیا اور کچھ پیسے اکھٹے کر کے سکول کی حالت کو بدلا اور اس کو یہاں تک پہنچایا کہ وہاں پر بیٹھ کر کلاسیں ہوسکیں۔
راجہ شیر بابر خان کا کہنا تھا کہ سکول کی حالت بدلنے کے بعد میں پورے علاقے میں گھومتا، پھرتا اور وہ بچے جو اپنے مال مویشی کے ساتھ ہوتے ان سے بات کرتا، ان کو راغب کرتا کہ وہ سکول میں داخلہ لیں۔ پھر ان کے والدین کے پاس جاتا ان سے گزارش کرتا کہ وہ اپنے بچوں کو سکول بھجیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شروع کے کچھ عرصے میں محنت کرنے کے بعد علاقے کے لوگوں نےاپنے بچوں کو سکول بھیجنا شروع کردیا اور میں بچوں کے ساتھ خوب محنت کرتا کہ ان کے والدین کو تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہوسکے۔ اس میں، میں بچوں کو تعلیم دینے کے علاوہ اخلاق، تمیز، اٹھنے، بیٹھنے کے طریقے سکھاتا تھا۔
اس محنت کا اثر یہ ہوا کہ کچھ ہی عرصے بعد میرا تبادلہ ہوا اور مجھے ترقی اورشاباش کے ساتھ مڈل سکول بھج دیا گیا تھا۔ اب اس پرائمری سکول میں ایک سو پچاس بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
اپنی قابلیت کو بھی بہتر بنایا
راجہ شیر بابر خان کہتے ہیں کہ جب میں مڈل سکول میں چلا گیا تو اس سکول میں زیادہ تر وہ ہی بچے تھے جو پرائمری سے مڈل کی طرف آئے تھے۔ یہ دیکھ کر میری خوشی کی انتہا نہیں رہی تھی۔ گو کہ یہ آغاز اور 80 کی دہائی تھی مگر یہ کامیابی میرا حوصلہ بڑھانے کے لیے کافی تھی۔
اس موقع پر میں نے اپنی تعلیمی قابلیت کو بھی بہتر بنایا۔ پہلے ایف اے اور پھر بی اے کیا۔ مجھے انگریزی کا مضمون پسند تھا۔ انگریزی میں اپنی قابلیت کو بہتر بنایا اور زیادہ تر میں نے بچوں کو انگریزی ہی کا مضمون پڑھایا تھا۔
راجہ شیر بابر خان کہتے ہیں اس سکول کی حالت کو بھی بہتر کیا گیا۔ اس کے لیے نہ صرف خود چند دیا بلکہ لوگوں سے بھی چندہ لیا تھا۔ اس سکول کو بھی کچھ عرصے کے ہائی سکول کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ مڈل کے اندر اس سکول کا نتیجہ بہت شاندار ہونے کے بعد بچوں کی تعداد بھی ریکارڈ سطح پر بڑھ چکی تھی۔
اعلیٰ افسران نے دیکھا کہ یہ سکول بھی چل نکلا ہے تو انھوں نے گرلز مڈل سکول میں تعنیات کردیا تھا۔
گرلز سکول کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا
راجہ شیر بابر خان کہتے ہیں کہ کہانی وہ ہی پرانی ہے۔ سکول کی حالت بری تھی۔ اس وقت تک میری تنخواہ آٹھ ہزار روپیہ ہوگئی تھی۔ بچیوں کو سکول میں لانے کے لیے لازمی تھا کہ سکول کی حالت کچھ بہتر ہوتی۔ اس کے لیے پیسے چاہیے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ اس موقع پر سب سے پہلا ٹارگٹ سکول میں قالین کی ضرورت تھی۔ جس کے لیے چار ہزار روپیہ درکار تھے۔ ایک ہزار میں نے دیئے اور باقی چندہ کیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد کھڑکیوں، دروازوں کی حالت کو بہتر کیا گیا تھا۔ والدین سے ملاقاتیں کرکے بچیوں کو سکول بھیجنے کی بات کرتا تو اس موقع پر اکثر کہتے ہیں بچیان زمین پر کیسے بیٹھیں گئیں۔ اس مرحلے کو بھی چیلنج سمجھ لیا اور کلاسوں میں بینچ لگوائے گئے تھے۔ جس کے بعد سکول میں بچیاں بڑھنا شروع ہوگئیں تھیں۔
راجہ شیر بابر خان کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ انتھک محنت شروع کردی تھی۔ بچیوں کو نصابی سرگرمیوں کے علاوہ غیر نصابی سرگرمیوں میں تیار کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک وقت آیا کہ ضلع کے مختلف مقابلوں میں ہمارے گرلز سکول نے دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرنا شروع کردی تھی۔ میرے وقت تو نہیں مگر بعد میں پہلی پوزیشن بھی حاصل کی تھیں۔
میں محکمہ تعلیم گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں تعنیات رہا مگر میری زیادہ تر تعیناتی اپنے ہی علاقے میں رہی تھی۔ اس دوران کئی مشکل ترین مرحلوں کا بھی سامنا کیا تھا۔
سکولوں کی زمینوں پر قبضہ نہیں کرنے دیا
راجہ شیر بہادر خان کہتے ہیں کہ وادی یاسین کے دو مختلف سکولوں میں تعنیاتی کے دوران سکول کی زمین پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف مکمل طور پر قانونی، اخلاقی جنگ لڑی تھی۔ میں مار کٹائی والا بندہ نہیں ہوں۔ مجھے نہیں یاد کہ کبھی کسی کے ساتھ بدتمیزی کی ہو۔
مگر ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ کچھ لوگ سکول کی زمین پر قبضہ کرنے کے لیے داخل ہوگے تو میں نے آگے بڑھ کر اس پر مزاحمت کی۔ اس دوران مجھے چوٹیں لگیں اور میں بے ہوش ہوگیا تھا۔ اس طرح ایک دوسرے سکول کی زمین پر بھی کچھ لوگ قبضہ کرچکے تھے ان سے قبضہ چھڑایا تھا۔
راجہ شیر بہادر خان کہتے ہیں کہ اب وہ زمین اب ان دونوں سکولوں میں شامل ہے۔ جہاں پر طالب علم پڑھتے اور کھیلتے ہیں۔ مگر اس دوران مجھے بہت دھمکیاں دی گئیں تھیں۔ مگر میں بھی ایک قدم پیچھے نہیں ہٹا، ڈٹ کر کھڑا رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اعلی احکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی اپنا کردار ادا کیا تھا۔
سکول، بچے اور ان کا مستقبل تو میرا عشق تھا میری موجودگی میں کیسے کوئی ان پر قبضہ کرسکتا تھا۔ میں نے اپنی 42 سالہ سروس کے دوران ایک دن بھی چھٹی نہیں کی تھی۔
بستر مرگ پر موجود والد نے کہا سکول جاؤ
راجہ شیر بہادر خان کہتے ہیں کہ اب علاقے میں سب لوگ مجھے استاد کی حیثیت سے جاننے پہچانے لگے تھے۔ میرا جب بھی ریکارڈ مرتب ہوتا تو میری ایک بھی چھٹی نہیں ہوتی تھی۔ اب میں ترقی کرتے کرتے گریڈ اٹھارہ میں ترقی پا گیا تھا۔ وہ مجھے سے پوچھتے کہ یہ کیسا ماجرا ہے کوئی بھی چھٹی نہیں ہے۔
تو میں کہتا کہ میں حق حلال کی نوکری کرتا ہوں۔ مجھے یہ گوارہ نہیں ہے کہ میری وجہ سے بچوں کا تعلیمی حرج ہو۔ یہ بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ ان ہی کے لیے ہمیں تنخواہ دی جاتی ہے تو وہ پھر بھی حیران ہوتے کہ یہ کیسے ممکن ہے۔ مگر یہ ناممکن نہیں تھا۔ میں نے کبھی بھی چھٹی نہیں کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے والد گھر ہی پر ہوتے تھے۔ وہ سماجی تقریبات میں شرکت کرتے تھے۔ پھر بیمار ہوئے تو میں ہی ان کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ وہ بھی سکول سے چھٹی کے بعد۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک روز میں سکول جانے کے لیے تیار ہورہا تھا کہ دیکھا کہ والد صاحب بہت بیمار ہیں۔ میں نے سوچا کہ سکول نہیں جاتا جب کافی دیر تک سکول نہیں گیا تو انھوں نے کہا کہ سکول کیوں نہیں گے۔ میں نے کہا کہ آپ کی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ جس پر انھوں نے مجھے ہدایت دی کہ میں سکول جاؤں۔
راجہ شیر بابر خان کہتے ہیں کہ اس روز برفباری ہو رہی تھی۔ میں برفباری میں سات آٹھ کلو میٹر کا پیدل سفرکر کے سکول پہنچا اور اپنے فرائض میں مشغول ہوگیا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد چھٹی کے قریب قریب مجھے اطلاع ملی کہ والد صاحب فوت ہوگئے ہیں۔ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔
میں سوچتا رہا اور اب بھی سوچتا ہوں کہ میرے والد مرحوم کو بھی یہ منظور نہیں تھا کہ میں چھٹی کروں اور اس طرح میری کبھی بھی چھٹی نہیں ہوئی۔