ہمارے ملک کے میڈیا پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) سے متعلق بے شمار خبریں سننے میں آتی ہیں۔ جن میں ہمیں سی پیک کے فوائد بتانے کہ بعد چین اور ہماری ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری دوستی سے متعلق یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔ جبکے زمينی حقائق قدر مختلف ہيں
پاکستانی ميڈيا ميں بليک آؤٹ
ایسی خبروں کو جوآج ہم آپکے ساتھ شریک کرنے لگے ہیں۔ ہمارا میڈیا شایع تو کرتا نہیں ہے۔ بلکے اکثر ان خبروں پر پردہ ڈالنے کی بھی کوشش کرتا ہے. بہرحال ہمارا قومی فریضہ ہے۔ کہ ہم اپنے ان پاکستانی بھائیوں کی آواز بنیں۔ جن کی زندگیوں کو چین نے انکے اپنے ہی ملک میں اجیرن کر دیا ہے۔ اور انکی آواز سننے والا کوئی نہیں ہے۔.
یہ خبر ہے ہمارے ان غریب پاکستانی مزدور بھائیوں کی جنہيں انکے بچوں کی بھوک اور گھر کے ٹھنڈے ہوتے چولہوں نے سینڈک۔ جھنگ پاور پلانٹ اور پورٹ قاسم میں ۔چائنیز کمپنیوں کا غلام بننے پر مجبور کردیا ہے۔
ان تینوں جگہوں پر چینی کمپنیوں نے ہمارے پاکستانی مزدوروں پر ظلم وزیادتیوں کے پہاڑ گرا دیے ہیں۔ افسوس کے ہمارے ملک میں کسی کو کانوں کان اسکی خبر نہ ہوئی۔ ان زیاتیوں کے ردعمل میں سینڈک ور جھنگ میں مزدوروں اور انکے گھر والوں نے۔ جو وہاں کے مقامی افراد ہيں۔ مظاہرے کیے اور اپنے بنيادی انسانی حقوق کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ سینڈک اور جھنگ کے ملازمین کے مسائل مکمل طور پر حل نہ ہوے۔ البتہ کم از کم انکے لئے سوشل میڈیا پر کچھ مقامی صحافیوں نے آواز ضرور اٹھائی۔ لیکن پورٹ قاسم کے ملازمین جو کراچی کے باسی بھی نہیں ہیں۔ اور دور دراز علاقوں سے مزدوری کرنے آتے ہیں، آج تک پورٹ قسم کی چینی کمپنی کے ساتھ اپنی لڑائی اکیلے ہی لڑ رہے ہیں۔ اور ابھی تک کسی نے بھی انکی آواز بننے کی کوشش نہیں کی ہے۔
سینڈک کے ملازمین پر چائنیز کمپنی کی زیادتیوں کی داستان۔ آپ یہاں پڑھ ۔سکتے ہیں۔
اور جھنگ کے حویلی بہادر شاہ پاور پلانٹ کے ملازمین کی شکایات اور احتجاجی مظاہرہ کے بارے میں آپ مندرجہ ذيل میں شائع ہونيوالی خبر کا خلاصہ پڑھ سکتے ہیں
ملازمين کی آواذ دبانے کی کوشش
جھنگ کے پاور پلانٹ میں ملازمین کے احتجاج کے بارے میں جب سے یہ آرٹیکل جو ۔روزنامہ اوميگا نيوز ۔پر شایع ہوا تھا، پورٹ قسم کے ایک ملازم نے اپنے مسائل کی خاطر آواز اٹھانے کے لئے۔ ٹویٹر پر شيئر ۔کیا، تب سے اس آرٹیکل کو ویب سائٹ سے، نجانےکس وجہ سے ہٹا دیا گیا ہے
اب ہم آپکی توجہ پورٹ قاسم کے ملازمین کی طرف دلاتے ہیں جہاں پاکستانی ملازمین کہ وہ ہی تحفظات ہیں جو سینڈک اور جھنگ کے چينی کمپنيوں کے ملازمين کے ہیں. کراچی جیسے روشنیوں سے جگمگاتے شہر میں بھی ہمارے وہ پاکستانی بھائی جو چائنیز کمپنيوں میں برسرروزگار ہیں اور ایک غلام جیسی ذندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ انکی مشکلات وہ ہی ہیں جو سینڈک اور جھنگ کے ملازمین کے ہیں. یہ بات دوہرانا اسلئے ضروری ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ یہ اعتراضات من گھرت یا جھوٹے نہیں ہو سکتے۔
جیسے سینڈک کے ملازمین نے احتجاج کیا ویسے ہی پورٹ قسم کے ملازمین نے بھی حکومت کے ساتھ اپنی شکایات درج کی لیکن چینی کمپنی نے من گھرت باتیں بنا کے حکومت کو ٹرخا دیا اور ان ملازمین کی زبانوں پر تالے لگا دیۓ.
یہ ملازمین مجبور اور بے بس ہو کر سوشل میڈیا پر اپنی آواز اٹھانے لگے لیکن انکی آواز سننے والا کوئی نہیں ہے.
حیرت کی بات یہ ہے کے انکی مسائل میں ایک مثلا نماز ادا کرنے میں مشکلات کا ہے. اور یہ ایک انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اپنے ہی ملک میں آپ پر ایسی پابندیاں لگیں کہ آپ نماز نہ پڑھ سکیں
کچھ عرصہ پہلے ڈان نیوز نے پورٹ قسم میں ایک چینی ورکر کی خود کشی کی خبر رپورٹ کی تھی جس نے پورٹ قسم میں غیر انسانی سلوک کی وجہ سے خود کشی کی. ہمیں اس سے یہ اندازہ لگانا چاہے کہ اگر چینی ورکرز کا یہ حال ہے تو ہمارے پاکستانی بھائیوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہوگا.
غير انسانی سلوک کی فہرست
چینی کمپنی کے پاکستانی مزدوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک سے متعلق ملازمین کی مندرجہ ذیل شکایات ہیں جو انہوں نے متعد بار درج کرانے کی کوشش کی ہے
.ان ميں سے چند شکايات مندرجہ ذیل ہيں
١) نماز ادا کرنے کے لئے کوئی بندوبست نہیں ہے۔
٢) چینی مینجمنٹ اور ملازمین لمبی داڑھی والے پاکستانی بھائیوں کو انکی داڑھی کی وجہ سے تانے مارتے ہیں.
٣) ملازمین کو چھٹیوں پر نہیں جانے دیا جاتا اور اگرکوئی ملازم گھر میں کسی مجبوری کی وجہ سے چھٹی کے لئے اصرار کرے تو اسکو دھمکایا جاتا ہے کے رخصتی کی وجہ سے اسکی نوکری ختم کر دی جائے گی۔
٤) ملازمین کی تنخواہ کم از کم اجرت کے معیار پر بھی پورا نہیں اترتی۔
٥) اگر کوئی ملازم کسی بیماری یا وبا کا شکار ہوتا ہے۔ تو اسکو گھر بھیج کر اکثر نوکری سے برخاست کر دیا جاتا ہے۔.
٦) پاکستانی ملازمین اور چینی ملازمین کے ساتھ سلوک میں اور سہولیات میں واضح فرق ہے۔.
٧) پاکستانی ملازمین کو اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔ اور اگر کوئی اپنے حق کے لئے بات کرے تو اسکو ڈرا دھمکہ کہ چپ کرا دیا جاتا ہے۔
٨) پاکستان ملازمین کے رہنےوالے کوارٹرز بنیادی انسانی معیار سے بھی کافی نیچے ہیں۔.
ہمیں چاہے کہ ہمارے ان بھائیوں کے لئے ہم سوشل میڈیا پر آواز اٹھائیں اور انکی مدد کے لئے کسی سماجی کارکن سے انکے مسائل شریک کریں۔ تاکہ ہم انکے ساتھ نہ صرف ہمدردی کا اظہار اور انکی حوصلہ افزائی کر سکیں۔ بلکہ کوئی انکے مشکلات کا نوٹس بھی لے