تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی ) اور حکومت پاکستان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کے بعد ٹی ٹی پی نے ملک میں اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ حملوں میں اضافے کے باوجود مذاکرات میں شامل فریقین نے باضابطہ طور پر مذاکرات ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے۔ کہ حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں عدم اعتماد کی فضا قائم ہے۔
اسی دوران پاکستان حکومت کے وفد کے ایک نمائندے بیرسٹر سیف کا کہنا ہے۔ کہ "مذاکرات کا عمل ابھی جاری ہے۔” وہ پاکستان حکومت کی جانب سے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکراتی وفد کا حصہ رہے ہیں۔ اپنی انٹرویو کے دوران سیف نے مزید کہا: ۔” ٹی ٹی پی نے نہ تو ان مذاکرات کی تردید کی اور نہ ہی اس سے دستبرداری کی بات کی۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹی ٹی پی اب بھی مذاکرات جاری رکھنے پر آمادہ ہیں۔ لیکن اگر بات جنگ بندی کی ہو۔ معاملہ کچھ زیادہ ہی متنازعہ ہے۔ سیف نے یہ بھی کہا کہ حکومت کے خلاف ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ ظاہر کرتا ہے۔ کہ وہ (ٹی ٹی پی ) جنگ بندی میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
حملے جاری
گزشتہ ماہ خیبرپختونخوا کے ماتہ پہاڑوں میں تحریک طالبان پاکستان کی موجودگی۔ ایک پولیس افسر کو گولی مارنے اور دیگر کے اغوا کی ویڈیوز کے جاری ہونے نے سوالات کو جنم دیا۔ اس کے بعد اس صوبے کے مختلف علاقوں جیسا کہ مالاکنڈ۔ اورکزئی، لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل خان۔ کے قریب کلاچی اور ہٹالہ میں ٹی ٹی پی۔ کی موجودگی کی اطلاعات موصول ہوئیں۔
سوات میں ٹی ٹی پی کے حملے میں مارا جانے والا ادریس خان کون تھا؟۔ سوات میں ٹی ٹی پی کی واپسی کی اطلاعات؛ کیا حکومت نے واقعی کچھ علاقے ان کے حوالے کردیے ہیں؟ ۔حکومت پاکستان ان دعوؤں کی تردید کرتی ہے لیکن سیف کے مطابق مذاکرات کے باوجود۔ اس میں شامل فریقین کو مسائل کا سامنا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان اب بھی جنگ بندی پر عمل پیرا ہے۔ اور اس نے جنگ بندی کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔
ٹی ٹی پی اور حکومت پاکستان کے درمیان عدم اعتمادی۔
تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی نے اس سال جون میں غیر معینہ مدت کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔ یہ فیصلہ حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کے بعد کیا گیا۔
اس اعلان سے قبل ٹی ٹی پی نے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر کئی بار حملے کیے تھے۔ سیف کے مطابق جنگ بندی کے دوران یہ طے پایا گیا تھا کہ دونوں فریق ایک دوسرے پر حملہ نہیں کریں گے تاہم حملہ ہونے پر انہیں اپنے دفاع کا حق حاصل ہو گا۔ بيرسٹر سیف کہتے ہیں کہ حکومت اپنی بات پر قائم ہے اور ٹی ٹی پی کا کہنا ہے کہ جب بھی ان پر حملہ ہوا، اس نے دفاعی طور پر حملہ کیا۔ اس معاملے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ گزشتہ دو ماہ میں حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان عدم اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔
پرتشدد واقعات کے ایک مبصر اور تجزیہ کار عقیل یوسفزئی نے بی بی سی۔ کو بتایا کہ مذاکرات کی صورتحال انتہائی کشیدہ ہے اور ان کا کہنا تھا کہ ‘ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ کیونکہ دونوں فریقوں کے درمیان غلط فہمی اور عدم اعتمادی ہے۔
‘ یوسفزئی مزید کہتے ہیں، "ٹی ٹی پی کا ایک ۔اہم رہنما عمر خالد خراسانی۔ گزشتہ ماہ افغانستان میں مارا گیا تھا۔ جو ان مذاکرات میں بھی شامل تھا۔ اس کے بعد افغانستان میں کچھ اور ٹی ٹی پی رہنماؤں پر حملے کیے گئے۔ جس کی وجہ سے مذاکرات میں تاخیر ہوئی اور ٹی ٹی پی کا غصہ بھڑکا۔
وہ کہتے ہیں: ان رہنماؤں کے قتل کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی اور ان واقعات نے حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان عدم اعتمادی پیدا کر دی۔
ماہرين کی کيا راۓ ہے؟
پاک فوج کے ریٹائرڈ کرنل محمود شاہ نے بی بی سی۔ کو بتایا کہ خیبر پختونخوا میں ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں اور ان کے دوبارہ سر اٹھانے کے حوالے سے صوبے میں خوف کی کوئی فضا نہیں ہے۔ لیکن بقول اُن کے۔ ”سیاسی طور پر ایسا دکھایا جا رہا ہے جیسے ٹی ٹی پی دوبارہ آگئی ہو۔‘‘ وہ کہتے ہیں: ۔اگر ایسے عناصر موجود بھی ہیں۔ تو ہم ان کے خلاف اقدامات اٹھا ئے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ ان کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔
بعض ذرائع کا کہنا ہے۔ کہ سوات اور قریبی علاقوں۔ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ارکان کو تعینات کیا گیا۔ ہے تاہم ابھی تک کسی کارروائی کی اطلاع نہیں ملی۔
دوسری جانب سوشل میڈیا پر متعدد سیاسی اور عسکری ماہرین ٹی ٹی پی کے داعش خراسان نامی گروپ سے تعلق کی خبریں دے رہے ہیں۔ داعش خراسان جس نے ابتدائی طور پر ٹی ٹی پی۔ کی مدد سے خطے میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کا آغاز کیا لیکن خطے کے ممالک کے ہاتھوں شکست کھا گئی۔ اور اب ٹی ٹی پی کے ساتھ مل کر خطے میں اپنے آپ کو مستکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ان تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ٹی ٹی پی کا داعش خراسان کے ساتھ الحاق ان کے زوال کا سبب بنے گا اورحکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں تاخیر یا معطلی کی بھی توقع ہے۔
کیا تحریک طالبان پاکستان اور حکومت پاکستان کے درمیان مذاکرات ابھی بھی جاری ہیں؟
فی الحال حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان تعلقات کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ اور بعض قبائلی رہنما جو ان مذاکرات میں حصہ لے رہے ہیں۔ خاموش ہیں اور کچھ نہیں کہہ رہے ہیں۔ سیف کا کہنا ہے کہ کچھ باتیں چل رہی تھیں۔ لیکن سوات اور مٹہ کے واقعات نے حالات کو کشیدہ کر دیا۔
حکومتی نمائندے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ۔”امارت اسلامیہ نے ان مذاکرات میں تیسرے فریق کے طور پر کردار ادا کیا، لیکن اب اس نے بعض اندرونی مسائل کی وجہ سے یہ موقف چھوڑ دیا ہے۔ اس لیے جب موقع ملے گا۔ مذاکرات دوبارہ شروع کیے جائیں گے۔