سنہ 2009 پاکستانی کرکٹ کے لیے ہنگامہ خیز سال ثابت ہوا تھا۔ سال کے آغاز میں ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس وقت کے چیرمین اعجاز بٹ نے شعیب ملک کو تینوں فارمیٹس کی کپتانی سے ہٹاکر یونس خان کو کپتان مقرر کردیا تھا۔
اس سے پہلے وہ جیف لاسن کو بھی کوچ کے عہدے سے ہٹا چکے تھے اور ان کی جگہ انتخاب عالم کو یہ ذمہ داری سونپ دی تھی۔
اُس سال کا سب سے اہم واقعہ مارچ میں لاہور ٹیسٹ کے دوران سری لنکن ٹیم پر ہونے والا دہشت گرد حملہ تھا۔
ان تمام واقعات نے پاکستانی ٹیم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ ایسے میں جب ٹیم دوسرا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کھیلنے انگلینڈ پہنچی تو کوئی بھی اسے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہ تھا حالانکہ دو سال قبل اس نے پہلی بار منعقد کیے گئے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا تھا۔
وارم اپ میچوں میں بھی شکست
پاکستانی ٹیم جس اعتماد سے ورلڈ کپ کا آغاز کرنا چاہتی تھی وہ عالمی مقابلے سے پہلے ہی متزلزل ہوگیا جب اسے اپنے دونوں وارم اپ میچوں میں بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔
ٹرینٹ برج میں اسے جنوبی افریقہ نے 59 رنز سے ہرایا جبکہ اوول میں بھارت کے خلاف اسے 9 وکٹوں کی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔
رہی سہی کسر ٹورنامنٹ میں اس کے پہلے میچ میں انگلینڈ کے خلاف 48رنز کی شکست نے پوری کردی۔
’یہ کپتان نے کیا بیان دے دیا؟‘
انگلینڈ کے خلاف شکست کے بعد پاکستانی ٹیم کی ناقصد کارکردگی سے زیادہ موضوع بحث کپتان یونس خان کا وہ بیان تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ محض ایک تفریح ہے۔
یونس خان نے کہا کہ اگر پاکستانی ٹیم عالمی مقابلے کے سپر ایٹ مرحلے تک نہیں پہنچتی ہے تو یہ دکھ کی بات تو ہوگی لیکن وہ ٹی ٹوئنٹی کو کبھی بھی بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
پاکستان میں ان کے اس بیان کا شدید ردعمل سامنے آیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ بھی اس بیان پر خوش نہیں تھا جبکہ متعدد سابق کرکٹرز نے اس بیان کو شائقین کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف قرار دیا۔
یونس خان نے بعد میں اپنے اس بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے یہ بات ٹورنامنٹ کے دوران اپنے کھلاڑیوں پر سے دباؤ ہٹانے کے لیےکہی تھی۔
یونس خان نے اسی دوران سری لنکن ٹیم پر حملے کے سلسلے میں بھی یہ بیان دیا تھا کہ پاکستان حالتِ جنگ میں ہے جس پر پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم کے منیجر یاور سعید کو وضاحت کرنی پڑی تھی۔
رن ریٹ پر اگلے مرحلے تک رسائی
ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں ہالینڈ کی انگلینڈ کے خلاف ڈرامائی جیت اور پھر پاکستانی ٹیم کی انگلینڈ کے خلاف شکست کے بعد پاکستانی ٹیم کے لیے لازمی ہوگیا تھا کہ وہ ہالینڈ کو بہتر رن ریٹ سے ہرائے ورنہ یہیں سے واپسی کے لیے تیار ہوجائے۔
میچ میں ہالینڈ کو 176 رنز کا ہدف ملا تھا اور اگر وہ 151 رنز بھی بنالیتی تو سپر ایٹ میں پہنچ جاتی لیکن شاہد آفریدی کی چار وکٹوں کی شاندار کارکردگی نے اسے صرف 93 تک محدود کردیا۔
اس میچ میں وکٹ کیپر کامران اکمل نے 41 رنز کی اننگز اور چار اسٹمپنگ کی بدولت مین آف دی میچ ایوارڈ حاصل کیا تھا۔
عمرگل کا نہ بھولنے والا سپیل
سپر ایٹ مرحلے میں پہنچنے کے بعد بھی پاکستانی ٹیم کی مشکلات کم نہیں ہوئیں۔ سری لنکا کےخلاف لارڈز میں 19 رنز سےشکست کے بعد معاملہ بالکل ایسے ہی تھا کہ ایک قدم آگے تو دو قدم پیچھے۔
نیوزی لینڈ کے خلاف اوول کے میدان میں ہونے والا میچ درحقیقت ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا جس نے پاکستانی کھلاڑیوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھا دی کہ یہ تفریح نہیں بلکہ سنجیدہ کرکٹ ہے اور اس کے لیے سنجیدگی اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔
انڈیا میں ہونے والی ‘باغی’ کرکٹ لیگ آئی سی ایل کی وجہ سے دو سال انٹرنیشنل کرکٹ سے دور رہنے والے عبدالرزاق کی پاکستانی ٹیم میں واپسی آل راؤنڈر یاسر عرفات کے ان فٹ ہونے کی وجہ سے ممکن ہوئی۔
لیکن ایسا لگا کہ اس واپسی کا اس سے زیادہ صحیح موقع کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا۔
عبدالرزاق نے خطرناک بیٹسمین برینڈن مک کلم کو اپنے پہلے اور مارٹن گپٹل کو تیسرے اوور میں آؤٹ کرکے نیوزی لینڈ کی ٹاپ آرڈر بیٹنگ کو ہلاکر رکھ دیا۔
اور پھر اس کے بعد اوول کے میدان میں شائقین کو عمرگل کی جانب سے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی تاریخ کے یادگار ترین بولنگ سپیل میں سے ایک دیکھنے کو ملا جس میں وہ بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی میچ میں پانچ وکٹیں لینے والے پہلے بولر بن گئے تھے۔
عمرگل نے تین اوورز میں صرف چھ رنز دے کر پانچ وکٹیں حاصل کیں۔ اس سپیل میں وہ دو مرتبہ ہیٹ ٹرک کے قریب بھی آئے۔
عمرگل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس یادگار بولنگ کی یاد تازہ کرتے ہیں۔
‘اس میچ نے ہی دراصل ہمیں نیا حوصلہ دیا تھا۔ ٹورنامنٹ شروع ہونے سے قبل میں نے اپنا ہدف یہ رکھا تھا کہ 2007ء کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی طرح اس بار بھی سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنی ہیں۔اتفاق سے دونوں ٹورنامنٹ میں میری وکٹوں کی تعداد تیرہ تیرہ رہی۔’
عمرگل کہتے ہیں کہ ٹی ٹوئنٹی میں ان کی عمدہ بولنگ کا راز بیس اوورز کی کلب کرکٹ اور ماہ رمضان میں ٹیپ بال کرکٹ ہے۔
‘ٹیپ بال میں آپ کی یارکر بہت پکی ہونی چاہیے تاکہ بیٹسمین کو ہٹ مارنے کا موقع نہ مل سکے۔ مجھے اس کی کافی پریکٹس تھی اور یہی چیز انٹرنیشنل کرکٹ میں میرے کام آئی۔ میں بیٹسمین کو پہلے سے بھانپ لیتا تھا اور اس کی باڈی موومنٹ کے مطابق بولنگ کرتا تھا۔’
’مجھے بیٹنگ میں اوپر بھیجو‘
دنیا شاہد آفریدی کو ٹی ٹوئنٹی کے کامیاب بولر کے طور پر دیکھتی آئی تھی۔ پہلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں وہ بارہ وکٹیں لے کر مین آف دی ٹورنامنٹ بنے تھے۔ انگلینڈ میں بھی وہ گیارہ وکٹیں لینے میں کامیاب رہے۔
لیکن اس ٹورنامنٹ میں وہ ایک قابل اعتماد بیٹسمین کے طور پر بھی سامنے آئے ۔سیمی فائنل اور فائنل دونوں میں انھوں نے میچ وننگ نصف سنچریاں اسکور کیں اور دونوں میں ہی مین آف دی میچ رہے۔
آفریدی اپنی کتاب ‘گیم چینجر’ میں لکھتے ہیں: ‘نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کے بعد میں کپتان یونس خان کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ مجھے اوپر کے نمبر پر بیٹنگ کے لیے بھیجیں۔ یونس خان نے مجھ سے کوئی سوال نہیں کیا۔ وہ میرے انداز کو سمجھ گئے تھے کہ میں کیا چاہتا ہوں اور جب میں نےجنوبی افریقہ کے خلاف سیمی فائنل میں ژاک کیلس اور یوہان بوتھا کی بولنگ کی درگت بنائی تو کپتان اور مجھے یہ معلوم ہوچکا تھا کہ میں اوپر کے نمبر پر بیٹنگ کے لیے کیوں کہہ رہا تھا۔’
جنوبی افریقہ کے خلاف میچ میں وہ منظر آج بھی لوگوں کو یاد ہے کہ جب شاہد آفریدی کیلس کو چوکے لگا کر فلائنگ ِکس ( ہوائی بوسے) کے اشارے کر کے انھیں چھیڑا تھا۔
آفریدی فائنل کے بارے میں کہتے ہیں ‘میں نے 19گیندوں کا سامنا کرتے ہوئے کسی باؤنڈری کے بغیر 17رنز بنائے تھے جس کے بعد میں نے مرلی دھرن کو ایک ہی اوور میں چھکا اور چوکا لگایا تھا۔ میں نے اپنے جارحانہ مزاج کے برخِلاف یہ اننگز کھیلی تھیں۔ میں خود پر کسی قسم کا دباؤ محسوس نہیں کررہا تھا۔ میرے ذہن میں بس یہی ایک بات تھی کہ پاکستان کو فاتح بنوا دوں کیونکہ چند ماہ پہلے ہمارے ملک میں سری لنکن ٹیم کے ساتھ جو ہوا تھا وہ میرے دماغ میں چل رہا تھا۔’
’شاباش بچے، ٹینشن نہیں لینی‘
نوجوان فاسٹ بولر محمد عامر پاکستانی ٹیم میں پہلی بار شامل ہوئے تھے۔
کپتان یونس خان کا کہنا ہے کہ انھوں نے جب سلیکٹرز سے نوجوان محمد عامر کو ٹیم میں شامل کرنے کی بات کی تھی تو انھیں یہ جواب ملا تھا کہ لیفٹ آرم تیز بولر سہیل تنویر کے ہوتے ہوئے اس نوجوان بولر کی کیا ضرورت ہے۔
محمد عامر کہتے ہیں کہ فائنل میں ان کے آخری اوور کے بارے میں ہر کوئی بات کرتا ہے۔
انھیں یاد ہے کہ یونس خان ان کے پاس آئے اور گیند تھماتے ہوئے کہنے لگے ‘شاباش بچے، ٹینشن نہیں لینی۔ کھلے دل سے بولنگ کرو۔’
یونس خان کا کہنا ہے کہ اس وکٹ پر پیس تھی لہذا انھوں نے عبدالرزاق کے بجائے محمد عامر کو پہلے اوور کے لیےگیند دی تھی جس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ نوجوانوں پر ذمہ داری ڈالی جائے۔
اس میچ کے پہلے اوور میں محمد عامر نے کوئی بھی رن دیے بغیر مین آف دی ٹورنامنٹ تلکارتنے دلشن کو آؤٹ کردیا تھا، تاہم ان کے آخری اوور میں سترہ رنز بنے تھے۔
شعیب ملک کی ٹرافی کے ساتھ تصویر
شعیب ملک پہلے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے لیکن اس مرتبہ وہ عام کھلاڑی کی حیثیت سے ٹیم کا حصہ تھے۔
شعیب ملک بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس لمحے کو خاص طور پریاد کرتے ہیں جب کپتان یونس خان نے ٹرافی کے ساتھ ان کی خاص طور پر تصویر بنوائی۔
‘جب ہم جیتے تو ہماری خوشی بیان سے باہر تھی۔ گراؤنڈ سے باہر اور لندن شہر کے مختلف علاقوں میں پاکستانی جشن منارہے تھے۔ مجھے 2007 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل یاد آرہا تھا جو ہم بہت قریب آ کر نہیں جیت سکے تھے اس کا افسوس آج تک ہے۔’
شعیب ملک کہتے ہیں ‘جب ہم 2009ء کا فائنل جیتنے کے بعد ہوٹل پہنچے تو مجھے کپتان یونس خان نے کمرے میں کال کر کے کہا کہ نیچے لابی میں آؤ۔ میں جب نیچےگیا تو ان کے ہاتھ میں ٹرافی تھی ۔انھوں نے کہا کہ یہ ٹرافی اٹھاؤ۔ انھوں نے ٹرافی کے ساتھ میری ایک خصوصی تصویر بنوائی۔ انھیں اندازہ تھا کہ دو سال پہلے میں کپتان کی حیثیت سے یہ ٹرافی نہیں اٹھاسکا تھا۔ یہ ان کا یہ ُحسن سلوک تھا جسے میں کبھی بھول نہیں سکتا۔’
ٹیم میں اختلافات
پاکستانی ٹیم اگرچہ ٹی ٹوئنٹی کی فاتح بنی لیکن کھلاڑیوں میں اختلافات بھی اپنی جگہ موجود تھے۔
شاہد آفریدی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: سنہ 2000 کے اواخر سے پاکستانی ٹیم میں کپتانی کا بحران موجود رہا ہے۔ یہاں تک کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی جیت بھی ہمیں ایک یونٹ کے طور پر قریب نہ لاسکی اور ڈریسنگ روم میں اتارچڑھاؤ نظر آتا رہا۔’
فاتح ٹیم میں کے وکٹ کیپر بیٹسمین کامران اکمل بی بی سی اردو کو بتاتے ہیں انگلینڈ اور ہالینڈ کے خلاف میچوں کے موقع پر بھی کھلاڑیوں کی آپس میں لڑائی ہوئی تھی، لیکن جب ٹیم میدان میں اترتی تھی تو صرف یہی سوچ ہوتی تھی کہ جیتنا ہے۔
‘ہر کھلاڑی کے ذہن میں دو سال پہلے کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ تھا اور اس مرتبہ ہر کوئی ُاس شکست کی تلافی کرنے کے لیے ُتلا بیٹھا تھا۔’
کامران اکمل کہتے ہیں ‘میں کھلاڑیوں کےدرمیان اختلافات کے بارے میں تفصیل میں جانا نہیں چاہتا لیکن یہ بات سب کو معلوم تھی، بلکہ اس وقت کوچ نے بھی ہمیں یہی کہا تھا کہ آپ ُچپ رہ کر کھیلیں ورلڈ کپ کے بعد ہم سب کچھ دیکھ لیں گے ہمیں سب پتہ چلتا ہے۔’
کامران اکمل کہتے ہیں کہ بس ہم کھیلتے گئے۔ ‘سوچ یہی تھی کہ پرفارمنس کرکے دینی ہے کیونکہ مقابلہ ایک دوسرے کے ساتھ تھا اسی وجہ سے ہم کامیاب ہوتے گئے۔’
فاتح ٹیم کے کوچ انتخاب عالم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کھلاڑیوں کو یہ بات سمجھانی پڑتی ہے کہ آپ کسی کے لیے نہیں کھیل رہے ہیں بلکہ اپنے ملک کے لیے کھیل رہے ہیں۔
‘یہ پیغام دینا بہت ضروری ہوتا ہے۔ میں نے ایسے کئی کرکٹرز دیکھے ہیں جو اوپر سے بہت سخت لیکن اندر سے نرم طبیعت ہوتے ہیں۔ آپ کسی بھی ٹیم کو دیکھ لیں پندرہ کرکٹرز کبھی بھی ایک جیسے مزاج والے نہیں ہونگے۔’
انتخاب عالم کہتے ہیں یونس خان اپنے انداز سے کام کرنے والے کپتان تھے۔
‘بعض اوقات ان کے کچھ آئیڈیاز اتنے سخت تھے جو دوسرے پسند نہیں کرتے تھے۔ ایسے میں میں یہی سمجھایا کرتا تھا کہ اختلافات کو ایک طرف رکھو ٹیم اور ملک کے لیے پہلے سوچو۔’
انتخاب عالم کہتے ہیں جب آپ چوبیس گھنٹے لڑکوں کے ساتھ رہتے ہیں تو آپ کو یہ چیز نظر آتی ہے اور آپ اسے محسوس کرلیتے ہیں۔آخر میں یہ بات لوگوں کے سامنے آگئی۔
ریٹائرمنٹ اور پھر بغاوت
فائنل میں جب شاہد آفریدی اور شعیب ملک ٹیم کو فتح کی طرف لے جارہے تھے پاکستانی ٹیم کے ڈگ آؤٹ میں خاموشی تھی۔
کپتان یونس خان نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ انھیں 2007ء کا ورلڈ کپ فائنل یاد تھا اس لیے انھوں نے تمام کھلاڑیوں کو کہہ رکھا تھا کہ جب تک میچ ختم نہیں ہوجاتا بیٹھے رہیں اور ہلہ گلہ نہ کریں۔
یونس خان نے جیت کے فوراً بعد ٹرافی ہوا میں لہراتے ہوئے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا تھا۔
ٹیم میں شامل آف اسپنر سعید اجمل کہتے ہیں ‘یونس خان کا یہ فیصلہ اچانک تھا۔ کھلاڑیوں کو اس بات کا قطعاً علم نہیں تھا کہ وہ ورلڈ کپ جیتنے کے فوراً بعد یہ اعلان کردیں گے۔’
یونس خان ٹی ٹوئنٹی کو خیرباد کہہ گئے لیکن وہ ٹیسٹ اور ون ڈے کے کپتان تھے۔
مگر اس عالمی مقابلے کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان کے ساتھی کھلاڑیوں نے ان کی کپتانی میں کھیلنے سے انکار کردیا۔
اس کا سبب انھوں نے یونس خان کا سخت رویہ بتایا۔ اس بغاوت میں محمد یوسف، شاہد آفریدی، مصباح الحق، شعیب ملک، کامران اکمل، رانا نویدالحسن اور سعید اجمل نمایاں تھے۔
سال 2009 کے ختم ہوتے ہوتے پاکستانی کرکٹ ٹیم پھر بحرانی کیفیت سے دوچار ہوچکی تھی۔
یونس خان نہ صرف کپتان نہیں رہے تھے بلکہ وہ اور محمد یوسف پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے غیرمعینہ مدت تک پابندی کی زد میں بھی آ چکے تھے۔
جب اُس سال کے آخر میں دورہ آسٹریلیا کے لیے ٹیم روانہ ہوئی، تو پاکستان کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں جیت سے ہمکنار کرانے والے یونس خان اس ٹیم کا حصہ نہ تھے۔
It’s too bad to check your article late. I wonder what it would be if we met a little faster. I want to exchange a little more, but please visit my site casino online and leave a message!!