یہ سنہ 1957 کی بات ہے جب پہلی بار کسی انسان کی بنائی گئی. چیز کو کامیابی کے ساتھ خلا میں چھوڑا گیا. تاکہ وہ زمین کے گرد مدار میں چکر لگائے۔
یہ بیضوی شکل کی خوبصورت اور سادہ سی چیز سوویت روس کی تیار کردہ سیٹلائٹ سپوتنک-ون تھی. جس میں صرف چار اینٹینا تھے۔
لیکن اس تاریخی واقعے کا پریشان کن معاملہ بھی سامنے آیا تھا. کیونکہ انسانیت نے اس کے ساتھ ہی اپنا پہلا خلائی ملبہ زمین کے گرد مدار میں چھوڑا تھا۔
یعنی سپوتنک کو لانچ کرنے والے 267 ٹن وزن اور 30 میٹر لمبے راکٹ کا کچھ حصہ بھی مدار میں رہ گیا تھا. اور اس کی وجہ سے اچانک دنیا. کو ایک مسئلہ درپیش تھا. جسے ہم نہیں جانتے تھے. کہ ہمیں اسے کیسے حل کرنا ہے. یا اس کو حل کرنے کی کوئی ضرورت بھی ہے۔ اور یہ بیرونی خلا میں کوڑے کرکٹ کا مسئلہ تھا۔
لیکن خوش قسمتی سے یہ ہوا کہ سپوتنک اور راکٹ کا ٹکڑا جو مدار میں رہ گیا تھا. لانچ کے بعد کافی تیزی سے ہماری فضا میں واپس آیا اور جل کر تباہ ہو گیا۔ بہر حال ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا ہے. کیونکہ خلائی تحقیق کے صرف 66 سالوں کے دوران زمین کے گرد مدار میں نامیاتی ملبے کی ایک بڑی مقدار جمع ہو گئی ہے۔
بہر حال اب امریکی خلائی ادارے ناسا اور جاپان کے خلائی ادارہ جیکسا کے پاس اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے. ایک آئیڈیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اب بڑے پیمانے پر دستیاب، بایوڈیگریڈیبل مواد یا لکڑی سے بنائے گئے سیٹلائٹس ہی خلا میں چھوڑے جائیں۔
خلائی کوڑے کا موجودہ مسئلہ
ان خلائی ایجنسیوں کو جس مسئلے کو حل کرنے کا سامنا ہے. وہ ایک بڑا اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اور اس ضمن میں یہ معلوم کرنا کہ اس منصوبے کا پہلا مرحلہ کتنا بڑا تھا۔
ہم جانتے ہیں کہ انسان کے تیار کردہ خلائی راکٹوں کے ملبے کے کم از کم 130 ملین ٹکڑے زمین کے گرد مدار میں موجود ہیں، جن میں سے زیادہ تر سات کلو میٹر فی سیکنڈ سے زیادہ کی رفتار سے گھوم رہے ہیں۔ عام زبان میں ان کی رفتار کسی بندوق سے نکلی گولی سے آٹھ گنا زیادہ تیز ہے۔
اگرچہ ملبے کی یہ تعداد اپنے آپ میں حیران کن ہے. لیکن کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ ایک محتاط تخمینہ ہے اور ملبہ کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
خلا میں بھیجی جانے والی زیادہ تر اشیا اس وقت تک وہیں رہتی ہیں جب تک کہ وہ یا تو مدار سے باہر نہ ہو جائیں. یا پھر دوبارہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہوئے جل نہ جائيں یا زمین سے دور کھنچ کر چلی جائیں. اور مدار کے قبرستان میں سینکڑوں سال تک چکر لگاتی رہیں۔
الیکٹرانکس
اس طرح کی زیادہ تر اشیا دراصل بہت چھوٹی ہیں یعنی ایک سینٹی میٹر سے بھی کم ہیں۔ ان میں راکٹوں پر لگے پینٹ کے پرخچوں سے لے کر الیکٹرانکس کے چھوٹے ٹکڑے اور انسولیشن فوم یا ایلومینیم کے ٹکڑے تک شامل ہیں۔
خلا میں موجود کچرے کے اتنے چھوٹے چھوٹے ٹکروں سے بنے ملبے کو زمین سے نہیں دیکھا جا سکتا، یہاں تک کہ طاقتور دوربینوں سے بھی نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں چاہیے. کہ خلا میں موجود اس کچرے کو دیگر اشیاء سے ٹکراتے وقت کے شواہد تلاش کریں مگر یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔
ناسا کے پانچ خصوصی مشنز کے بار بار مدار میں جانے اور پھر زمین پر واپس آنے کے بعد اس مسئلے کے دائرہ کار کا جائزہ لینے کا کام سنجیدگی سے شروع کیا گیا۔ ناسا نے سنہ 1981 کے بعد سے اب تک کل 135 شٹل مشن لانچ کیے ہیں۔