عروج آفتاب: گریمی ایوارڈ یافتہ گلوگارہ کو ’پاکستانی اور اردو گلوکارہ‘ کہلانے پر اعتراض کیوں؟

عروج آفتاب

پاکستانی گلوکارہ عروج آفتاب جنھوں نے 2022 کے گریمی ایوارڈز میں اپنے گانے ’محبت‘ کے لیے بہترین گلوبل میوزک پرفارمنس کا ایوارڈ جیتا تھا اب انھیں پاکستانی اور اردو گلوکارہ کہلانے پر کچھ اعتراضات ہیں۔

یاد رہے عروج آفتاب کو جس گانے پر گریمی دیا گیا اسے سنہ 1920 میں حفیظ ہوشیارپوری نے ’محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے‘ لکھا تھا۔

ٹوئٹر پر انھوں نے لکھا ’پاکستانی گلوکار عروج آفتاب۔۔۔ اردو گلوکارہ عروج آفتاب۔۔۔ عروج آفتاب کی حیرت انگیز اردو گائیکی۔۔۔ یہ سب ٹھیک ہے؟ لیکن کیا ایک موسیقار جو سفید فام نہیں ہے کبھی اس ٹیگ یا ہمارا تعلق کہاں سے ہے، اس بارے میں جو بھی لوگ سمجھ رہے ہیں، اس کے بغیر بھی پہچانا جا سکتا ہے؟‘

ایک اور ٹویٹ میں انھوں نے لکھا ’ہاں میں سکون سے جدید زمانے کی موسیقی بنا سکتی ہوں۔‘

تنقید کے بعد انھوں نے لکھا کہ اس ٹویٹ نے ’یہ تو پاکستان مخالف ہے‘ جذبات کو جگا دیا ہے۔ زبردست۔ میں اپنی جڑوں اور ورثے کو مٹانے یا ترک کرنے کی بات نہیں کر رہی ہوں۔‘

شکوہ

انھوں نے شکوہ کیا کہ ان دنوں وہ یورپ اور برطانیہ کا دورہ کرتے ہوئے محسوس کر رہی ہیں کہ ’ہمیں صرف ایک جغرافیائی اور لسانی تناظر میں رکھ کر دیکھا جاتا ہے اور اس سے ان کے لیے ہمیں اور ہماری کامیابی کو نظر انداز کرنا آسان ہو جاتا ہے اور اس سے ہم اس سے بھی محروم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے جو ہم مزید حاصل کر سکتے ہیں۔‘

سوشل میڈیا پر اس پر ملا جلا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ کچھ لوگ عروج پر تنقید کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ’اگر ایسا ہی تو آپ اردو کی کلاسک غزلیں گانا چھوڑ دیں۔‘

ایک صارف نے عروج کی ٹویٹ کا طنزیہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ اردو میں غزلیں گاتی ہیں جو ان کی زبان نہیں ہے۔

فرح نے ان پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ کیا وہ اردو عزلیں نہیں گاتیں؟ اور کیا انھیں ایک اردو غزل پر ہی گریمی نہیں ملا؟

حبیب اللہ خان نے کہا کہ آپ اسی چیز کا شکوہ کر رہی ہیں جس نے آپ کو پہچان دلائی۔ آپ اس سے ہٹ کر اپنی پہچان چاہتی ہیں تو اسے کمائیں۔

جبکہ کئی افراد عروج سے متفق نظر آتے ہیں۔

مہر حسین نے لکھا ’میں یہ سمجھ سکتی ہوں۔ لیکن جغرافیہ ہی ہماری شناخت بناتا ہے۔ فرانس میں آپ صرف فرانسیسی ہوتے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ میں آپ کی قومیت کے ساتھ افریقی امریکی یا برطانوی مسلمان جڑا ہوتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’بحیثیت مصنفہ مجھے اس چیز سے نفرت ہے کہ مجھے سیاہ فام، ایشیائی اور اقلیتی نسل کے طور پر کہا جائے کہ آپ ہم میں سے نہیں۔ آپ کو صرف ایک تخلیق کار کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.