چین اپنی آلودگی پھیلانے والے صنعتوں سے چھٹکارا پانے کے ليے انہيں سی پيک کے نام پر پاکستان جیسے ممالک میں منتقل کر رہا ہے-
ماحولياتی آلودگی ميں اضافہ
اس وقت چين سميت پوری دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خطرناک صورت حال سے خوفزدہ ہے۔ اوردنیا بھر میں ماحولیاتی مسائل۔ کے ماہرین اس مسئلے کے بارے میں مسلسل غور وفکر کر رہے ہیں۔ پیرس میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ جس میں دنیا بھر کے رہنماؤں نے شرکت کی تھی-
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے ۔جہاں عالمی ماحولیاتی تبدیلیاں بڑے پیمانے پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ پاکستان آلودگی کا مقابلہ کرنے اور اپنی”کلین گرین پاکستان مہم” کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلی سے مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی درخت لگانے کی تین مہمات منعقد کی ہیں۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)۔ چین کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے جو بیلٹ اینڈ روڈ انشییٹیو (بی آر آئی) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بی آر آئی بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر کے ذریعے چین کو دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ ملاتاہے جسے چین اپنی سیاسی۔ اقتصادی ۔اور عسکری قوت پھیلانے کے لیے استعمال کریگا-
سی پیک کے قدرتی ماحول پر منفی اثرات
چین کی فرمائش پر سی پیک پاکستان کے ایسے حصوں سے گذرتا ہے جو قدرتی وسائل اور ماحولیاتی مسائل کے اعتبار سے انتہائی اہم ہیں۔ پاکستان کا شمالی حصہ جس میں گلگت بلتستان کا صوبہ اور خیبر پختونخواہ کے اضلاع چترال۔ کوہستان وغیرہ شامل ہیں اس حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
ان علاقوں میں پاکستان کے نہ صرف آبی وسائل کا ذخیرہ ہے۔ بلکہ پاکستان میں پائے جانے والی جنگلی حیات کی اکثریت بھی یہاں پائی جاتی ہے۔ برف اور گلیشیئرز کے حوالے سے اس علاقے کو قطب شمالی اور جنوبی کے بعد دنیا کے تیسرے بڑے ذخیرے کا درجہ حاصل ہے-
قراقرم اور ہماليہ
قراقرم، ہندو کش اور ہمالیہ کے انہی برف زاروں پر ہندو پاک کے میدانی علاقوں میں ہریالی اور زندگی کا دارو مدار ہے۔ پاکستان کے انہی علاقوں میں پانچ ہزار سے زائد چھوٹے بڑے گلیشیئرز اور ڈھائی ہزار کے قریب قدرتی جھیلیں موجود ہیں۔ جہاں سے پانی پورے پاکستان کو سیراب کرتا ہے۔
جانور معدوميت کا شکار
اس کے علاوہ یہ علاقے پرندوں کے موسمی نقل مکانی کے اہم راستوں میں سے ہیں۔ بیسیوں پرندے افزائش نسل کے لئے ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ سی پیک ماحولیات اور جنگلی حیات کے حوالے سے سرگرم اداروں اور افراد کی نظر میں انتہائی تشویشناک منصوبہ ہے۔
چین کے درآمد و بر آمد کی گاڑیوں اور کنٹینروں کے قافلے گذرنے سے جنگلی حیات کے مساکن ٹکڑوں میں بٹ جائیں گے۔ اور ہم ان قدرتی اثاثوں سے محروم ہو ہوجائیں گے ۔
اس کے ساتھ جس مقدار میں کاربن کا اخراج ہوگا وہ ان علاقوں میں بڑھتی حرارت کو تیز تر کر دے گا۔ اور گلیشیئرز کے ذخائر کا پگھلنا اور سکڑنا مزید تیز ہوگا۔ نتیجتاً سیلاب کی تباہ کاریاں جو ابھی سے کچھ کم نہیں مزید بڑھنے کا خطرہ ہے۔
سی پیک کے جنگلی حیات پر تباہ کن اثرات
سی پیک کے منصوبوں کی وجہ سے ان علاقوں میں پائے جانے والے جانوروں کی بقا بھی خطرے میں پڑسکتی ہے۔ یہاں کوئی چالیس سے اوپر کی تعداد میں ممالیہ جانور پائے جاتے ہیں۔ جن میں برفانی چیتا، تیندوا، بھورا ریچھ، سیاہ ریچھ ، سیاہ گوش، لداخ اڑیال، مارخور، آئی بیکس، مارکو پو لو شیپ، بھرال، جیسے بڑے اور اہم جانور شامل ہیں۔
معدومیت کے خطرے سے دوچار دنیا کے کئی ایک جانور اور پودے بھی انہی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان کے مسکنوں کو خطرہ پہنچنے سے ہم قیمتی اثاثے سے محروم ہو سکتے ہیں۔ کوئی بھی سی پیک جس۔ کا متبادل نہیں بن سکتا ۔
اس کے علاوہ دنیا بھر میں انسانی جانوں کے ضیاع کے کتنے واقعات جنگلی جانور کے اچانک روڈ کے۔ اوپر آنے سے یا پھر گاڑی سے ٹکرانے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اس کو بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔
سی پيک کی حقيقت
جب سے چین پاکستان اقتصادی راہداری ۔کے منصوبے کا آغاز ہوا ہے تب سے پاکستانی اخبارات اور نیوز چینل کی سرخیوں کی ذینت بنا ہواہے کہ گوادر کو دوبئی، سنگا پور اور نہ جانے کیا کیا بناینگے۔ لیکن اسکے منفی اثرات کو خود ہمارے حکمران اور چین نظراندازکرتے ہیں۔
حتیٰ کہ ہماری میڈیا نے بھی اس پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے- پاکستان آلودگی کا مقابلہ کرنے اور اپنی”کلین گرین پاکستان مہم” ۔میں تب تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک ہمارے۔ حکمران چین کے اس ناقص اور آلودگی پھیلانے والے ۔صنعتوں پر پابندی نہیں لگاتا۔
اصل میں چین اپنی آلودہ ترین صنعتوں سے چھٹکارا پانے۔ کی کوشش کرتا ہے اور انہیں پاکستان جیسے ممالک میں[ نصب کر رہا ہے جہاں کے لوگ آلودگی اور ۔ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔