میسی کا شمار ان نو کروڑ (نوے ملین) خواتین میں ہوتا ہے جو ایسے ملک میں رہتی ہیں جہاں اسقاط حمل پر مکمل طور پر پابندی عائد ہے۔
فلپائن میں وہ جس جگہ رہتی ہیں، وہاں وہ بلیک مارکیٹ میں فروخت ہونے والی اسقاط حملے کی گولیاں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتیں۔
لہذا انھوں نے آن لائن معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انٹرنیٹ پر ان کو بہت غلط معلومات ملیں جن میں غیر منظم انداز میں فروخت ہونے والی گولیوں کا استعمال اور غیر مؤثر گھریلو ٹوٹکے بھی شامل ہیں۔
گوگل اور فیس بک کے مختلف گروپس سے ملنے والی معلومات کے بعد میسی نے امرود کے پتوں، کڑک کافی اور ایلو ویرا کے استعمال جیسے طریقے اپنانے کا فیصلہ کیا۔
ایسے کوئی سائنسی شواہد موجود نہیں کہ ان میں سے کوئی بھی چیز حمل گرانے میں مؤثر ثابت ہوتی ہے۔
میسی کہتی ہیں کہ ایک ہفتے تک گھریلو ٹوٹکے کرنے کے باوجود بھی کچھ نہیں ہوا۔ ’بس میرے معدے اور سر میں درد رہنے لگا۔‘
گھریلو ٹوٹکوں کے غلط مشورے
’سینٹر فار کاؤنٹرنگ ڈیجیٹل ہیٹ‘ نامی ایک گروپ (جو مختلف مہمات چلاتا ہے) کو معلوم ہوا کہ 48 ممالک میں اگر آپ گوگل کے سرچ انجن میں لکھیں کہ ’اسقاط حمل کیسے کیا جائے‘ تو گوگل کا آٹو فنکشن مختلف قسم کے غیر مؤثر گھریلو ٹوٹکے تجویز کرتا ہے، جیسے کچے انڈے کھانا یا نمک والا پانی پینا۔
ایک بار پھر یہ بات دہرا دیں کہ سائنسی طور پر ایسے کوئی ثبوت موجود نہیں کہ یہ طریقے حمل گرانے میں مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔
گوگل اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ اس کا سسٹم ممکنہ طور پر اس قسم کی نقصان دہ پیشگوئیوں کو نہیں پکڑ سکتا تاہم کمپنی کا کہنا ہے کہ ایک بار اگر ان کی نشاندہی ہو جائے تو گوگل کی ٹیمیں ایسے مواد کو ہٹا دیتی ہیں۔
جنوبی افریقہ، کینیا، انڈیا، فلپائن، پولینڈ، یوکرین، آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ سمیت گوگل سرچ انجن پر اس قسم کی گمراہ کن تجاویز ہر براعظم میں ہی پائی جاتی ہیں۔
اشتہارات اور اکاؤنٹس کی بندش
دوسری جانب اسقاط حمل کی خدمات سر انجام دینے والی متعدد کمپنیوں نے، جو آن لائن اس بارے میں درست معلومات پیش کرتی ہیں، بی بی سی کو بتایا کہ ان کا مواد اکثر بغیر کسی وضاحت کے بلاک یا ہٹا دیا جاتا ہے:
- اسقاط حمل کی سروسز فراہم کرنے والی غیر منافع بخش تنظیم ’ایم ایس آئی ریپروڈکٹیو چوائسز‘ (MSI Reproductive Choices) جس کا شمار دنیا کی بڑی تنظیموں میں ہوتا ہے، کے یوٹیوب چینلز کو ہفتوں تک معطل رکھا گیا جبکہ گوگل اور فیس بک پر اس تنظیم کے اشتہارات کو بھی بلاک کر دیا گیا۔ گوگل، جس کے پاس یوٹیوب کی ملکیت ہے، کا کہنا ہے کہ ایسا غلطی سے ہوا اور اس تنظیم کے چینلز کو اب بحال کر دیا گیا ہے۔
- ’انٹرنیشنل پلینڈ پیرنٹ ہوڈ فیڈریشن‘ (International Planned Parenthood Federation ) جو 146 ممالک میں اپنی سروسز فراہم کرتی ہے، کا کہنا ہے کہ فیس بک اور گوکل پر اس کے تقریباً نصف اشتہارات کو مسترد کر دیا گیا۔
- دو سو ممالک میں اسقاط حمل کی گولیوں تک رسائی میں لوگوں کی مدد کرنے والی تنظیم ’وومین آن ویب‘ (Women On Web) سمیت متعدد تنظیموں نے اس بات کے شواہد پیش کیے ہیں کہ مختلف پلیٹ فارمز پر ان کے اشتہارات اور اکاؤنٹس کو بند کیا گیا۔
گوگل کا کہنا ہے کہ اسقاط حمل کے حوالے سے ان کی پالیسیاں واضح ہیں، جن میں سے کچھ کا تعین مقامی قوانین اور ضوابط کے مطابق کیا جاتا ہے۔
فیس بک کا کہنا ہے کہ اس نے ان چند اشتہارات کو بحال کر دیا ہے جن کو غلطی سے مسترد کیا گیا تھا۔
جہاں تک بات ہے کہ سرچ لسٹ میں سب سے اوپر کون سا اشتہار آتا ہے تو گوگل کا کہنا ہے کہ اس کا انحصار صرف ایڈورٹائزنگ کے لیے دی جانے والی فیس پر نہیں ہوتا بلکہ مجموعی طور پر معیار اور مناسبت جیسے عوامل بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
ایم ایس آئی جنوبی افریقہ کی وٹنی چینوگوینیا کا کہنا ہے کہ قیمتوں کا مقابلہ بجٹ کی جنگ کا ماحول بنا دیتا ہے جس میں اصولوں کے تحت کام کرنے والے اسقاط حمل کلینکس کو اشتہارات کے لیے اسقاط حمل مخالف کلینکس یا گولیاں فراہم کرنے والی ایسی کمپنیوں سے لڑنا پڑتا ہے جن پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں۔
ایم ایس آئی کے مطابق ایسی غیر منظم سائٹس کے اشتہارات عام طور پر گوگل کے سرچ انجن میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔
خود ہی علاج کا رواج
حمل گرانے کے لیے خود ہی علاج ڈھونڈنے کی کوشش کرنے والی میسی اکیلی خاتون نہیں۔
ایم ایس آئی ریپروڈکٹیو چوائسز کا کہنا ہے کہ وہ مسلسل آن لائن گروپس کا جائزہ لیتے رہتے ہیں جہاں لوگ گھریلو ٹوٹکوں اور گولیاں خریدنے والی جگہوں جیسی معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔
بی بی سی نے متعدد فیس بک گروپس میں ایسی خواتین کے بیانات دیکھے ہیں جو مایوسی میں گھریلو ٹوٹکوں کی تلاش کر رہی تھیں اور چند دن بعد جب ان سے کام نہیں بنا تو انھوں نے گولیوں کی تلاش شروع کر دی۔
مارا کلارک ابورشن سپورٹ نیٹ ورک نامی خیراتی ادارے کی بانی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ گولیاں، جو بعض اوقات واقعی حقیقی ادویات ہوتی ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ان کی مقدار بھی درست ہو، خواتین کا واحد حل ہوتی ہیں۔
کلارک کہتی ہیں کہ ’عین ممکن ہے کہ کوئی سائٹ ان گولیوں کا اشتہار تو دے رہی ہو لیکن وہ جعلی ہو اور صرف پیسے حاصل کرنے کے مقصد سے بنائی گئی ہو جو آرڈر تو لے گی لیکن دوائی نہیں بھیجے گی۔‘
ان آن لائن گروپس میں موجود خواتین میں سے چند ایسے ممالک میں رہتی ہیں جہاں اسقاط حمل غیر قانونی ہے اور ان کے نزدیک ان کے پاس واحد راستی یہی ہے۔ لیکن کئی خواتین ایسی بھی ہیں جو ایسے ممالک میں رہائش پذیر ہیں جہاں اسقاط حمل اور اس کے لیے گولیوں کے اشتہارات دینا قانونی سمجھا جاتا ہے، خصوصاً جنوبی افریقہ۔
ایم ایس آئی جنوبی افریقہ کی وٹنی چینوگوینیا کہتی ہیں کہ ’قانونی تو ہے لیکن اب بھی اس سے بہت سے غلط تصورات جڑے ہیں۔ اگر آپ ایسی جگہ تلاش کرنے کی کوشش کریں جہاں ایسی خدمات فراہم کی جاتی ہوں تو آسانی سے معلومات نہیں ملیں گی۔ مسئلہ رسائی کا ہے، صرف خدمات تک رسائی نہیں بلکہ معلومات تک بھی۔‘
ویمین آن ویب کی ونی الاسویروا کہتی ہیں کہ انٹرنیٹ پر کام کرنے والے آن لائن کلینکس نے ایسے لوگوں کو رسائی فراہم کر کہ، جو خود گولیاں حاصل نہیں کر سکتے، کسی حد تک اسقاط حمل کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا ہے۔
حمل گرانے سے متعلق دیگر گمراہ کن ٹوٹکے
ایسا نہیں کہ خواتین کی تولیدگی پر گمراہ کن مشورے آن لائن دنیا کے ساتھ ہی شروع ہوئے۔
ایبی گیل سامبو زیمبیا کے لوساکا علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک نو عمر خاتون ہیں جو رضا کارانہ طور پر جنسی صحت کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو بھی جانتی ہیں جنھوں نے حمل گرانے کے لیے کوکا کولا ابال کر استعمال کرنے سے لے کر کاساوا پتوں تک کے ٹوٹکے استعمال کیے۔
ایبی گیل یوتھ ڈویلیپمنٹ فاونڈیشن کے ساتھ کام کرتی ہیں تاکہ لوگوں کو بتایا جا سکے کہ حمل روکنے اور گرانے کے طریقوں تک کیسے رسائی حاصل کی جا سکے جو ان کے ملک میں قانونی ہے۔
ان میں سے زیادہ تر نوجوان خواتین ہیں جن کو انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں اور ان کی معلومات کا واحد ذریعہ ان کی کمیونٹی کے لوگ اور ان کے خاندان کے بڑے ہیں۔
ان کی دنیا اور آن لائن دنیا میں فرق یہ ہے کہ آن لائن معلومات تیزی سے پھیلتی ہیں یا پھر ان کو اشتہارات کے ذریعے نمایاں کیا جا سکتا ہے تاکہ ان لوگوں تک رسائی حاصل کی جا سکے جن تک شاید یہ عام حالات میں نہ پہنچے۔
ونی الاسویروا کا ماننا ہے کہ ’ایک ایسے وقت میں جب ٹیک کمپنیاں یہ طے کر رہی ہیں کہ کون سے معلومات کو آن لائن چلنے کی اجازت دی جائے گی اور کن کو نہیں، ٹیکنالوجی ایک دو دھاری تلوار بن چکی ہے۔‘