انڈیا کی سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ کے شہر ہلدوانی میں ہزاروں مکانات کو منہدم کرنے کے فیصلے پر حکم امتناع (سٹے آرڈر) جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور سات دن کے اندر پچاس ہزار لوگوں کو بے گھر نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ نے محکمہ ریلوے اور اتراکھنڈ کی ریاستی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ اس مسئلے کا کوئی عملی حل تلاش کریں۔
یاد رہے کہ اتراکھنڈ کی ہائی کورٹ نے 20 دسمبر کو شہر کے ریلوے سٹیشن کے اطراف کی زمینوں پر تعمیر کیے گئے تقر یباً 4400 مکانوں کو منہدم کرنے اور زمین خالی کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس فیصلے کے بعد بن پھول پورہ بستی کے مکینوں کو ایک ہفتے کے اندر مکان خالی کرنے کے نوٹس جاری کیے گئے تھے جس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی تھی۔
یاد رہے کہ ان بستیوں میں بیشتر مسلمان اور غریب طبقے کے ہندو آباد ہیں۔ مجوزہ انہدام سے پچاس ہزار سے زیادہ افراد کے بے گھر ہونے کا خدشہ تھا۔
زمين کی ملکيت
ریلوے کے محکمے کا کہنا ہے۔ کہ یہ زمین اس کی ملکیت ہے۔ جس پر ہزاروں لوگوں نے ناجائز تعمیرات کر لی ہیں۔
جب کہ مقامی باشندوں کا کہنا ہے۔ کہ ان کے پاس اپنےمکانوں کی زمین کی ملکیت ہے۔ بعض باشندوں نے ملکیت کے سرکاری کاغذات بھی عدالت میں پیش کیے ہیں۔
ان میں سے بہت سے باشندے عشروں سے یہاں آباد ہیں۔
اب سپریم کورٹ نے انہدام کی کارروائی پر حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے۔ سبھی فریقوں کو ملکیت سے متعلق ضروری دستاویزات جمع کرنے کا حکم دیا ہے اور آئندہ سماعت کے لیے سات فروری کی تاریخ مقرر کی ہے۔
انہدام کی مجوزہ کارروائی پر سٹے آرڈر آنے کے بعد بستی کے لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے انھیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ سے انھیں انصاف ملے گا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل ہلدوانی کے سیکڑوں متاثرین بن پھول پورہ بستی۔ کے ایک میدان میں جمع ہو کر اپنے مکان کو بچانے کے لیے دعا کر رہے تھے۔
ہائی کورٹ کے ذریعے انہدام کا حکم آنے کے بعد متاثرہ بستی میں افراتفری مچی ہو ئی تھی۔
ریلوے حکام نے اخبارت میں اشتہار دے کر بستی کے مکینوں کو ایک ہفتے کے اندر اپنے مکان خالی کرنے اور خود سے اپنے مکانات منہدم کرنے کا اشتہار جاری کیا تھا۔
اس میں کہا گیا تھا کہ اگر ان مکینوں نے اپنے مکانات نہیں گرائے تو مقامی انتظامیہ یہ مکانات اتوار سے گرانا شروع کر دے گی اور اس کے اخراجات بھی خود ان مکانات کے مکینوں کو ادا کرنے ہوں گے۔