’گگرال کو چھلنی کر کے زیادہ سے زیادہ گوند حاصل کرنے کے خلاف ہم علاقے کی خواتین مردوں کے ساتھ مل کر مہم چلا رہی ہیں۔‘
’ہم گگرال درخت پر راکھی باندھ کر حکام اور اس غیر قانونی کاروبار میں ملوث افراد کو احساس دلانا چاہتے ہیں. کہ یہ ہمارے لیے قیمتی ہے۔ جب اس کو خطرناک اجزا سے تیار کیمیکل سے زخمی کرتے ہیں تو یہ تکلیف ہم بھی محسوس کرتے ہیں۔‘
یہ کہنا ہے صوبہ سندھ کے ضلع تھر کے گاؤں ادھیگام کی رہائشی خاتون مروان کا جہاں گگرال درخت خطرے کا شکار ہے۔
گزشتہ ایک ماہ کے دوران سندھ وائلڈ لائف نے گگرال درخت (جس کو گگل بھی کہا جاتا ہے) کی گوند کو متحدہ عرب امارات اور سری لنکا سمگل کرنے کی دو الگ الگ کوششیں ناکام بنائی ہیں۔
سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے فیلڈ افسر اشفاق علی میمن، جو سمگلنگ کے دونوں کیسز میں تفتیشی افسر ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ سمگلنگ کی یہ کوشش کراچی ایئرپورٹ سے کی جا رہی تھی. جس کے بعد سندھ وائلڈ لائف کو اینٹی نارکوٹکس فورس نے اطلاع فراہم کی تو علم ہوا. کہ یہ گگرال درخت سے حاصل کردہ گوند تھی. جس کی خرید و فروخت اور برآمد پر پابندی ہے۔
فی کلو
واضح رہے کہ مختلف تخمینوں کے مطابق پاکستان میں اچھی قسم کی گگرال گوند 10 سے 15 ہزار روپے فی کلو میں دستیاب ہوتی ہے. تاہم بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کی قیمت دوگنا سے بھی زیادہ جبکہ بلیک مارکیٹ میں اس کی قیمت اس سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے. جس کی وجہ بخار، موٹاپے اور دل کے امراض کے علاج سمیت جنسی طاقت بڑھانے کے لیے اس گوند کا استعمال ہے۔
’اس کی قیمت دو کروڑ تک ہے‘
اشفاق علی میمن کے مطابق. کراچی ایئرپورٹ پر سمگلنگ کی ناکام کوشش کے بعد پکڑی جانے والی پہلی کھیپ میں کم از کم 17 ہزار 936 کلو گرام گگرال درخت کی گوند بر آمد ہوئی تھی. جس کو متحدہ عرب امارات سمگل کیا جا رہا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’اس کے ساتھ منسلک کاغذات میں. اس کی قیمت 50 لاکھ بتائی گئی جو غلط ہے۔‘
’ہمارے خیال کے مطابق اس کی کم از کم قیمت دو کروڑ روپے ہے۔ دوسری کھیپ پانچ سو کلو گرام تھی اور اس کی مالیت بھی دس لاکھ روپے بتائی گئی تاہم اس کی مالیت بھی زیادہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا. کہ کم قیمت دکھانے کی وجہ ٹیکس سے بچنا اور دیگر معاملات ہو سکتے ہیں۔
سندھ کے ادیب، شاعر اور ماحولیاتی کارکن بھارومل امرانی کئی سال سے گگرال کے تحفظ کی مہم چلا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’گگرال جنوبی پاکستان کے غریب محنت کشوں کا قحط سالی. اور مشکلات کے دور کا ساتھی ہے۔ یہ ماحولیاتی محافظ ہی نہیں بلکہ غریب کی روزی روٹی کا بڑا زریعہ بھی ہے۔‘
گگرال درخت کیسے زخمی ہو کر مردہ ہوتا ہے. اور اس سے حاصل. کردہ گوند کی کیا اہمیت ہے. اور اس کو بچانے کے لیے مہم کیوں جاری ہے؟ اس پر آگے چل کر نظر ڈالتے ہیں، پہلے دیکھتے ہیں. کہ یہ گگرال درخت ہے کیا؟
گگرال درخت کی خصوصیات کیا ہیں
گگرال کو بین الاقوامی ادارے آئی یو سی این نے خطرے کا شکار قرار دیا ہوا ہے۔ یہ جنوبی پاکستان اور مغربی انڈیا کے علاقوں کا مقامی درخت ہے۔ پاکستان کے صوبہ سندھ اور بلوچستان جبکہ انڈیا کے گجرات، راجھستان اور میسور کے علاقے میں یہ درخت پایا جاتا ہے۔
سندھ وائلٹ لائف کے چیف کنزرویٹر جاوید احمد مہر کے مطابق گگرال صحرائی، کم بارش اور پتھریلے علاقوں کا درخت ہے۔
’یہ صوبہ سندھ میں کیرتھر نیشنل پارک، کارونجھر، رن آف کچھ وائلڈ لائف سینکچویری، گورکھ ہلز اور ملحقہ کیرتھر رینجز، بلوچستان اور صوبہ پنجاب کے ڈیرہ غازی خان اور ملحقہ علاقوں میں قدرتی طور پر پایا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا. کہ یہ درخت صحرائی اور کم بارشوں والے علاقوں کے ماحولیاتی نظام، فوڈ چین میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔
’اس کو مختلف جنگلی حیات اپنی خوراک کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ زمین اور مٹی کا دفاع کرتا ہے، جیسے جب صحرائی علاقوں میں تیز ہواہیں چلتی ہیں. تو اس ہوا میں یہ مٹی کو اڑنے. سے روکتا ہے۔‘
جاوید احمد مہر کے مطابق ’جس کھیت کے اندر گگرال کا درخت موجود ہو. تو یہ کھیت کی نقصان دہ کیڑوں سے حفاظت کرے گا۔‘
جراثیم کے خلاف جنگ
’اس کی بڑی اہمیت جراثیم کے خلاف جنگ کرنا اور بیماروں کو روکنا ہے۔ یہی وجہ ہے. کہ لوگ قدیم زمانے سے اس کی ٹہنیاں اپنے گھروں کے اردگرد لگاتے ہیں۔‘
جاوید احمد مہر کے مطابق گگرال کے غیر قانونی کاروبار پر پابندی سندھ ہائی کورٹ میں دائر کردہ ایک درخواست منظور ہونے کے بعد لگائی گئی۔
’اس پیٹیشن میں استدعا کی گئی تھی. کہ ماحولیات کا تحفظ کیا جائے جس پر سندھ ہائی کورٹ نے ہمیں. اس کا جائزہ لینے کا حکم دیا تو ہمارے ماہرین نے یہ. جانا کہ ماحولیات کو گگرال درخت کے کم ہونے سے نقصان پہنچ رہا ہے. جس کا ایک بڑا سبب غیر قدرتی طور پر اس کی گوند کا حصول تھا۔ اس درخت سے غیر قدرتی طور پر گوند حاصل کرنے اور اس کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔‘