
وفاقی حکومت نے 2025-26 مالی سال کے بجٹ میں درآمد شدہ سولر پینلز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے، جس سے درآمد شدہ سولر پینلز کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔
اس سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں سولر پینلز پر. 17 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا تھا، تاہم شہباز شریف کے. وزیر اعظم بننے کے بعد یہ ٹیکس ختم کر دیا گیا تھا۔
شہباز شریف نے اپنی ایک تقریر میں اس وقت بتایا تھا. کہ اس ٹیکس کو گرین انرجی کی حوصلہ افزائی کے لیے. ختم کیا گیا ہے، لیکن اب شہباز شریف ہی کی حکومت نے. یہ ٹیکس دوبارہ عائد کیا ہے۔
ٹیکس عائد کرنے کی وجہ کے بارے میں وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے گذشتہ روز جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں بتایا کہ مقامی سطح پر بننے والے سولر پینلز کو فروغ دینے کے لیے درآمد شدہ پینلز پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا تھا، ’مقامی صنعت کی فروغ کے لیے. یہ ٹیکس عائد کیا گیا ہے. کیونکہ پینلز اب پاکستان میں بھی بنائے جاتے ہیں، جن سے سالانہ ایک گیگا واٹ بجلی بنائی جا سکتی ہے۔‘
درآمد شدہ سولر پینلز
پاکستان میں اس وقت زیادہ تر درآمد شدہ سولر پینلز فروخت کیے جاتے ہیں. جن میں مختلف بین الاقوامی کمپنیوں کے سولر پینلز شامل ہیں۔
تاہم عطا تارڑ کے بیان کی حقیقت جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے بعض کمپنیوں کے ساتھ بات کی ہے کہ پاکستان میں بننے والے. سولر پینلز کتنے پائیدار ہیں اور مقامی سطح پر بننے والے. پینلز واقعی درآمد شدہ پینلز سے سستے ہیں۔
انجینئر ابرار اللہ ’وولٹ مائنز‘ نامی سولر کمپنی کے سربراہ ہیں اور پاکستان کے مختلف شہروں میں گھروں اور کمرشل عمارتوں پر سولر سسٹم نصب کر چکے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان میں پینلز تو بنائے جاتے ہیں لیکن درآمد شدہ اور مقامی سطح پر تیار کردہ سولر پینلز کی کوالٹی میں فرق ضرور ہے۔
ابرار اللہ نے بتایا کہ چین کی بڑی سولر بنانے. والی کمپنیوں میں انورکس، ٹرینا، لونگی، کینیڈین اور جینکو شامل ہیں جو دہائیوں سے سولر صنعت سے وابستہ ہیں۔
پاکستان میں بننے والے پینلز
انہوں نے بتایا، ’پاکستان میں بننے والے پینلز زیادہ تر مونوکریسٹلائن اور پولی کریسٹلائن پینلز ہوتے ہیں، لیکن یہ ٹیکنالوجی اب پرانی ہوتی جا رہی ہے۔ چینی کمپنیوں نے اب ٹاپ کان، ایچ جی ٹی، پی ای آر سی. جیسے نئی ٹیکنالوجی پر مبنی پینلز بنانے شروع کیے ہیں۔‘
کسی بھی پینل میں اس کی پائیداری اور بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت دیکھی جاتی ہے، اور ابرار اللہ کے مطابق پاکستان میں. بننے والے پینلز کی بجلی پیدا کرنے کی کارکردگی. 18 سے 19 فیصد ہے، جبکہ چین میں بننے والے سولر پینلز کی کارکردگی 20 سے 25 فیصد تک ہے۔
تاہم ابرار اللہ کے مطابق کسی بھی پینل. کی ایفیشنسی ایک بار چیک کر کے نہیں ناپی جا سکتی کیونکہ سولر پینل کی کارکردگی ہر سال تقریباً ایک فیصد تک کم ہو جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا، ’اب اس میں مسئلہ یہ ہوتا ہے. کہ چینی کمپنیاں دہائیوں سے یہ کام کر رہی ہیں. اور سالوں بعد بھی ان کے پینلز کی ایفیشنسی چیک کی جاتی ہے، لیکن پاکستانی پینلز کی ایفیشنسی کچھ سالوں بعد کیا ہو گی، یہ ابھی سے پتہ لگانا مشکل ہے۔‘