دنیا کے آٹھ بلین افراد میں سے تقریبا پانچ بلین لوگوں کو ‘ٹرانس فیٹس‘ سے دل کی بیماریوں کا خطرہ لاحق ہے۔ عام طور پر صنعتی سطح پر تیار کردہ اس چکنائی کو کوکنگ آئل، بیکری مصنوعات اور پیک شدہ غذاﺅں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کی تازہ رپورٹ کے ۔مطابق ٹرانس فیٹس۔ (Trans Fats) دنیا میں صحت کا ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہیں۔ مصر، پاکستان، آسٹریلیا اور جنوبی کوریا ان ممالک میں سر فہرست ہیں۔ جو ٹرانس فیٹس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق صنعتی سطح پر تیار کردہ چکنائی کی اس قسم سے دل کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور اس کے باعث سالانہ تقریبا پانچ لاکھ افراد قبل از وقت موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
دنیا سے صنعتی فیٹی ایسڈز کا خاتمہ
ڈبلیو ایچ او نے سن دو ہزار اٹھارہ میں ایک اپیل جاری کی تھی۔ کہ کھانے کی اشیاء میں صنعتی طور پر تیار ہونے والے فیٹی ایسڈز کو سن دو ہزار تئیس تک دنیا بھر سے ختم کر دیا جائے۔ تب ایسے شواہد سامنے آئے تھے کہ صنعتی سطح پر تیار کی۔ جانے والے ایسے چکنائی والے اجزا سے سالانہ نصف ملین افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 2.8 بلین افراد کی مشترکہ آبادی والے 43 ممالک نے اب۔ اس تناظر میں بہترین طرز عمل کی پالیسیاں نافذ کی ہیں۔ لیکن اس دنیا کے تقریبا پانچ ارب انسان اب بھی۔ ایسے فیٹی ایسڈز سے غیرمحفوظ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ایسے فیٹی ایسڈز کے حوالے سے مناسب پالیسیاں اختیار نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان جیسے ممالک میں دل کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔
یہ چکنائی دل کی شریانوں میں خون کی گردش کو متاثر کرتی ہے۔ اور اس کا استعمال اکثر پیک شدہ کھانوں، تلی ہوئی اشیاء اور کھانا پکانے کے تیل کی تیاری میں کیا جاتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی طرف سے مزید کہا گیا ہے۔ ”ٹرانس فیٹ ایک زہریلا کیمیکل ہے۔ جو ہلاکت کا باعث بنتا ہے۔ اور کھانے میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے‘‘۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس گیبریئسس کا یہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہنا تھا۔ ”اب اس سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ یہ مادہ صحت کے لیے بہت بڑے خطرات کا باعث بنتا ہے۔ اور اس سے صحت کے نظام پر بھاری اخراجات ہوتے ہیں‘‘۔
کھانے کی اشیاء تیار کرنے والی کمپنیاں ٹرانس فیٹس اس لیے استعمال کرتی ہیں۔ کیونکہ ان کے استعمال سے اشیاء کی شیلف لائف لمبی ہو جاتی ہے۔ اور یہ فیٹی ایسڈز سستے بھی ہوتے ہیں۔