یہ رواں برس اپریل کے مہینے کی بات ہے۔ سنیچر کو علی الصبح جب اکارا ایٹیہ وسطی لندن میں ٹرین سٹیشن سے باہر نکلے تو انھوں نے اپنی جیب سے فون نکالا۔
انھوں نے ابھی اپنی جیب سے فون نکالا ہی تھا ہی کہ ایک موٹر سائیکل سوار چھپٹا مار کر ان کا فون لے اڑا۔ اکارا اس شخص کے پیچھے بھاگے بھی مگر وہ چشم زدن میں ٹریفک کی بھیڑ میں کہیں غائب ہو گیا۔
ایک اندازے کے مطابق گذشتہ ایک سال کے دوران انگلینڈ اور ویلز میں چھینا چھپٹی کے 78 ہزار واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
اس طرح کے جرائم میں مقدمات چلانے کی شرح بھی بہت کم ہے۔ لندن پولیس کا کہنا ہے کہ وہ اس نوعیت کے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں تاہم ابھی تک ’مسئلے سے نمٹنے کا حل تلاش نہیں کیا جا سکا ہے۔‘
اس نوعیت کے جرائم کا نشانہ بننے والے افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سے ان پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ان کے فونز کی چوری سے ان کی یادگار تصاویر کھو رہی ہیں جن کی تلافی نہیں ہو سکتی۔
اکارا کے لیے مایوسی کی ایک بات یہ بھی تھی کہ انھیں یہ تو معلوم تھا کہ ان کا فون کہاں گیا ہے لیکن وہ اسے حاصل کرنے کے معاملے میں بے بس تھے۔
لندن کے ارد گرد فون کی موجودگی
اس واردات کے ایک گھنٹے بعد جب اکارا گھر پہنچے تو انھوں نے اپنے چوری شدہ آئی فون 13 کو ’لاسٹ موڈ‘ میں ڈال دیا تاکہ چور فون میں موجود ان کے مواد تک رسائی حاصل نہ کر سکیں جبکہ اسی دوران انھوں نے اپنے لیپ ٹاپ کا استعمال کرتے ہوئے انھوں نے ’فائنڈ مائی آئی فون‘ کے ذریعے چھینے گئے. فون کی تلاش کوشش شروع کر دی۔
اس سے اکارا کو یہ پتہ لگانے کا موقع ملا کہ ان کا اس وقت کس علاقے میں ہے اور تقریباً فوراً ہی انھیں ایک اطلاع موصول ہوئی کہ ان کا فون ’ازلنگٹن‘ نامی علاقے میں ہے۔ آٹھ دن بعد ان کا فون دوبارہ شمالی لندن کے آس پاس کے مختلف مقامات پر پایا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ان میں سے وہ دو مقامات پر اپنے کی تلاش میں گئے. بھی تاہم وہ اس قسم کے جرائم کا نشانہ بننے والے افراد کو مشورہ دیتے ہیں کہ خود سے ایسی جگہوں پر جانے اور اپنے طور پر اپنا فون تلاش کرنے سے گریز کریں کیونکہ اس میں خطرات ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ کافی خطرناک تھا۔ میں غصے سے بھرا ہوا تھا۔‘
مہنگا فون
انھوں نے کہا کہ ’میں واقعی ناراض ہوں۔ اتنا مہنگا فون خریدنے کے لیے. اور اتنی رقم کمانے کے لیے. ہم سخت محنت کرتے ہیں اور پھر کوئی اور شخص اسے لے اڑتا ہے۔‘
بہر حال چوری کے ایک ماہ بعد مئی میں اکارا نے جب ‘فائنڈ مائی آئی فون’ کو دوبارہ چیک کیا. تو انھیں معلوم ہوا کہ اُن کا ’قیمتی اثاثہ‘ اب لندن سے نکل کر. دنیا کے دوسرے کونے پر موجود ملک یعنی چین میں موجود ہے۔
سامنے آنے والی لوکیشن چین کے شہر شینزین کی تھی۔
یہ صورتحال دیکھ کر آخر کاراکارا نے ہار مان لی۔
چین کے شینزین میں چوری شدہ اور چھینے گئے فونز کا پہنچنا کوئی معمولی بات نہیں ہے. کیونکہ وہاں اگرچہ ڈیوائسز کو ان لاک اور دوبارہ استعمال کے قابل نہیں بنایا جا سکتا ہے. لیکن کم از کم انھیں فون میں لگے قیمتی پرزوں کے لیے توڑا جا سکتا ہے۔
ایک کروڑ 76 لاکھ آبادی والا چین کا شہر شینزین ایک بڑا ٹیک ہب بھی ہے. اور اس شہر کو ’چین کی سلیکون ویلی‘ بھی کہا جاتا ہے۔