لاہور کے شاہی محلے پر بالی وڈ کی ویب سیریز پر تنقید

3
0
 ویب سيريز
بھنسالی سیٹ تو اچھا ہے مگر کہانی کمزور ہے

بالی وڈ ہدایت کار سنجے لیلا بھنسالی لاہور کے شاہی محلے پر ویب سیریز بنا رہے ہیں۔ مگر اس پر پاکستانیوں نے ابھی سے تنقید شروع کر دی ہے۔

لاہور کا شاہی محلہ اب نہیں رہا، وہ نگار خانے اور ان سے جھانکتی صورتیں خاک ہو گئیں۔ مگر آج بھی ان گلیوں سے گزرتے ہوئے قدم خود بخود رکتے اور سانس کی لے تیز ہو جاتی ہے۔ جو طلسماتی کشش یہاں ہے۔ وہ بھولی بسری تہذیب کے کسی اور نقش میں نہیں۔

طوائف کے موضوع پر کتنا کچھ لکھا گیا، کیسی کیسی شاندار فلمیں بنیں مگر اس موضوع کی پراسراریت کم ہوئی نہ ہمارا تجسس۔ ہم وہ داستانیں مختلف زاویوں سے اور بار بار سننا چاہتے ہیں۔ کے آصف نے مغل دربار، کمال امروہوی اور مظفر علی نے لکھنو کے بازار حسن کو پردے پر زندہ کیا اور امر ہو گئے۔ ہمارے عہد میں سنجے لیلا بھنسالی اس آب حیات کی تلاش میں ہیں۔

1996 کی فلم ’خاموشی: دی میوزیکل،‘ ’دیوداس،‘ ’بلیک،‘ تاریخی کرداروں پر مبنی ’باجی راؤ مستانی‘ اور ’پدماوتی‘ سے سنجے لیلا بھنسالی نے ایک الگ دنیا تخلیق کی۔ ’گنگوبائی کاٹھیاواڑی‘ ان کا آخری شاہکار تھا جس میں ایک لڑکی کے معمولی طوائف بننے۔ سے ڈان تک کے سفر کو انتہائی خوبصورتی سے پیش کیا گیا تھا۔ اب وہ ویب سیریز کے ذریعے لاہور کی طوائفوں کی کہانی سنانے جا رہے ہیں۔

مشہور فلم ساز

بھنسالی نے چند روز قبل مشہور ہندوستانی فلم سازوں راج کپور، یش چوپڑا، محبوب خان، بمل رائے، گرو دت اور وی شانتارام ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت سمجھدار لوگ تھے۔ انہیں نے خواتین کی کہانیاں سنائیں اور لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا۔

’انہوں نے خوبصورت خواتین کی کہانیاں سنائیں۔ وہ جان گئے تھے کہ عورت انسان کی خالق ہے، سو ادب، سینیما اور فن میں ان کا تذکرہ کرنا چاہیے۔ وہ ہمیشہ خواتین کی کہانیاں سناتے رہے۔‘

بھنسالی بھی اب خواتین کے مرکزی کرداروں پر مبنی کہانیاں سنانے کی ڈگر پر ہیں جیسا کہ گنگوبائی کاٹھیاواڑی اور یہ نئی ویب سیریز ’ہیرامنڈی۔‘ اس تازہ سیریز کے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’بطور فلمساز ’ہیرامنڈی‘ میرے کیریئر کا اب تک کا سب سے مشکل منصوبہ ہے۔ یہ آٹھ مختلف فلمیں بنانے جیسا ہے۔ ہر ایپی سوڈ ایک مکمل فیچر فلم کی طرح ہے۔ اس ویب سیریز کی کہانی اس بازار حسن سے منسلک خواتین کی زندگی پر مبنی ہے جو ہیرامنڈی میں تھیں، وہی ہیرا منڈی جسے لاہور کا بازار حسن کہا جاتا ہے۔‘

دیکھنا یہ ہے کہ منیشا کوئرالہ، سوناکشی سنہا، ادیتی راؤ حیدری، رچا چڈھا، شرمین سیگل اور سنجیدہ شیخ کے کے ذریعے تقسیم سے پہلے طوائفوں کی تقافت، کوٹھوں میں پروان چڑھنے والی محبت، ان کی اندرونی چپقلشیں اور کشمکش کس قدر موثر انداز میں پردے پر اترتی نظر آتی ہے۔

باجی راؤ مستانی

Bollywood Movie Deepika

2015 میں ریلیز ہونے والی سنجے لیلا بھنسالی کی فلم ’باجی راؤ مستانی‘ میں دپیکا پڈوکون کا ایک انداز (سکرین گریب)

طوائف کے موضوع پر بننے والی فلموں کا ذکر ہو تو کیسے ممکن ہے۔ ’مغل اعظم‘ اور ’پاکیزہ‘ کو نظر انداز کر دیا جائے۔  بھنسالی نے کے آصف اور کمال امروہوی کو یاد کرتے ہوئے۔ کہا کہ ’ہیرا منڈی طوائف کے موضوع پر بننے والے لافانی شاہکاروں مغل اعظم اور پاکیزہ کو خراج تحسین ہے۔‘

مغل اعظم اور پاکیزہ کو لافانی شاہکار بنانے میں بھاری بھرکم کاسٹیوم اور بڑے بڑے سیٹس کا کردار بالکل بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر اس کے ساتھ ساتھ تحقیق، کہانی، مکالموں اور موسیقی میں بھی وہ سنگ میل ہیں۔ اور یہ سب چیزیں مل کر ایک لافانی شاہکار بناتی ہیں۔

سيٹ

بھنسالی سے زیادہ خوبصورت سیٹ شاید آج بالی وڈ کا کوئی دوسرا فلم ساز نہیں لگا سکتا۔ ان کے کردار سونے چاندی سے بھی خوب لدے ہوتے ہیں مگر حد سے زیادہ گلیمر بعض اوقات ان کی فلم میں احساس کی لو مدھم کر دیتا ہے۔ ان کی فلموں میں رنگ برنگی روشنیوں کی چکاچوند آنکھوں کو خیرہ تو کرتی ہیں نم نہیں۔

’دیوداس‘ کے آخری سین میں عاشق نامراد دیو بابو کی آخری سانسیں ہیں اور فلم کی کہانی میں یہ انتہائی جذباتی منظر ہے۔ دوسری طرف پارو اپنے محل نما گھر سے باہر نکلنے کے لیے دوڑ رہی ہے۔ یہاں بھی بھنسالی کی ساری توجہ محل کی چمک دمک اور ریڈ کارپٹ دکھانے میں صرف ہو جاتی ہے۔ اور اصل جذبہ کہیں پیچھے رہ جاتا ہے۔ ایسے ہی خدشات کا اظہار ہیرامنڈی کا پوسٹر دیکھنے کے بعد کیا جا رہا ہے۔

تبصره

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.