سور کا گردہ ٹرانسپلانٹ کروانے والے مریض کی وفات: ’اس بات کا کوئی اشارہ نہیں کہ موت کی وجہ ٹرانسپلانٹ بنی‘

4
2

امریکہ کے ایک ہسپتال میں ایک شخص میں 16 مارچ 2024 کو سؤر کے گُردے کی پیوندکاری کی گئی اب اس کی موت واقع ہو گئی ہے۔

میساچوسٹس جنرل ہسپتال (ایم جی ایچ) کے مطابق سرجری کے دو ماہ بعد اب 62 سالہ رچرڈ ’رک‘ سلیمن کی موت واقع ہو گئی ہے۔ انھیں سرجری کے دو ہفتے بعد اپریل .2024 کے آغاز پر گھر بھیج دیا گیا تھا۔

میساچوسٹس جنرل ہسپتال نے اتوار کو مؤقف اختیار کیا ہے. کہ اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ سلیمن کی موت ٹرانسپلانٹ کے نتیجے میں ہوئی۔ گردے کی بیماری کے علاوہ سلیمن ٹائپ 2 ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کے بھی. امراض میں مبتلا تھے۔ ہسپتال نے سلیمن کی اچانک موت پر ’گہرے دکھ‘ اور ان کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

جینیاتی طور پر ترمیم

انسانی جسم میں لگائے جانے والے سؤر کے اس گُردے میں جینیاتی طور پر ترمیم کی گئی تھی. اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ایسا نہ کرنے. کی صورت میں امکان تھا کہ انسانی جسم اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتا۔

ماضی میں جینیاتی طور پر تبدیل شدہ سورؤں سے اعضا کی پیوند کاری ناکام ہو چکی ہے. لیکن سائنسدان اب تک اس طریقہ کار کی کامیابی کو پیوند کاری کے میدان میں ایک تاریخی سنگ میل قرار دیا تھا۔

اس مریض کی صحتیابی کی خبر بھی ہسپتال کی طرف سے ایک پریس ریلیز کی صورت میں شیئر کی گئی تھی. جو امریکی شہر بوسٹن میں ہارورڈ میڈیکل سکول کا سب سے بڑا تدریسی ہسپتال ہے۔

پریس ریلیز میں ہسپتال نے کہا کہ مریض جن کا نام رچرڈ ’رک‘ سلیمن بتایا جا رہا ہے، وہ گردوں کی بیماری کے آخری مرحلے پر تھے اور انھیں اعضا کی پیوند کاری کی شدید ضرورت تھی۔

ڈاکٹروں نے 16 مارچ کو چار گھنٹے طویل سرجری کے دوران جینیاتی طور پر ترمیم شدہ سور کے گردے. کو ان کے جسم میں کامیابی کے ساتھ ٹرانسپلانٹ کیا۔

ڈاکٹروں کا کہنا تھا. کہ سلیمن کا گردہ اب ٹھیک کام کر رہا ہے. اور انھیں اب ڈائیلاسز کی ضرورت نہیں۔

Massachussets General Hospital

’ڈائیلاسز کی پریشانی کے بغیر زندگی جینا چاہتا ہوں‘

سرجری کے بعد ایک بیان میں سلیمن کا کہنا تھا کہ ہسپتال سے گھر جانے کے قابل ہونا ان کی زندگی کے ’خوش ترین لمحات میں سے ایک‘ تھا۔

’میں ڈائیلاسز کی پریشانی کے بغیر اپنے خاندان، دوستوں، اور پیاروں کے ساتھ زندگی جینا چاہتا ہوں۔ کئی سال سے اس بیماری نے میری زندگی کو متاثر کیا۔‘

سنہ 2018 میں انھیں ایک وفات پا چکے شخص کا گردہ لگایا گیا تھا. تاہم گذشتہ سال اس نے کام چھوڑ دیا اور ڈاکٹروں نے. انھیں سور کے گردے کی پیوند کاری کا آئیڈیا دیا۔

سلیمن کے رشتہ داروں نے کہا ہے کہ ان کی کہانی متاثر کن تھی۔

ان کے مطابق سلیمن نے کہا تھا کہ ’اس طریقہ کار سے گزرنے کی ایک وجہ ان ہزاروں لوگوں کے لیے امید فراہم کرنا تھی جنھیں زندہ رہنے کے لیے ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہے۔‘

رشتہ داروں کے مطابق ’سلیمن نے اس مقصد کو پورا کیا. اور ان کی امید اور امید ہمیشہ قائم رہے گی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے لیے، سلیمن ایک نرم دل انسان تھے، جن میں مزاح کی حس تھی، جو اپنے خاندان، دوستوں اور ساتھیوں کو ہمیشہ دستیاب رہتے۔‘

gettyimages

’سور کے نقصان دہ جینز کو ہٹا کر کچھ انسانی جسم سے مطابقت کے لیے انسانی جینز شامل کیے گئے‘

سلیمن کو سور کا جو گردہ لگایا گیا، اس میں کیمبرج میں قائم دوا ساز کمپنی ای جینیس نے ترمیم کی. تاکہ ’سور کے نقصان دہ جینز کو ہٹا کر انسانوں کے ساتھ اس کی مطابقت کو بہتر بنانے کے لیے کچھ انسانی جینز شامل کیے جائیں۔‘

ہسپتال کا کہنا ہے. کہ اس طریقہ کار کے لیے. انھوں نے سنہ 1954 میں دنیا میں انسانی اعضا کی پہلی کامیاب پیوند کاری سے رہنمائی لی .(گردے کی پہلی پیوند کاری میں یہ ہسپتال شامل تھا)۔

اس طریقہ کار کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے اجازت دی۔ ٹرانسپلانٹ پر کام کرنے والی ٹیم نے اسے ایک تاریخی قدم قرار دیا، جو دنیا میں اعضا کی کمی کا ممکنہ حل فراہم کر سکتا ہے، خاص طور پر نسلی اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والوں کے لیے. جنھیں یہ کمی زیادہ متاثر کرتی ہے۔

Massachussets General Hospital

دو مریضوں کو سور کا دل ٹرانسپلانٹ کیا مگر وہ چند ہفتے بعد ہی وفات پا گئے

سلیمن کے ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ’اس تکنیکی پیشرفت کے نتیجے میں اعضا کی وافر فراہمی (ایک اچھی طرح سے کام کرنے والا گردہ جو تمام ضرورت مند مریضوں کو مل سکے) صحت کے شعبے میں برابری اور گردے کی خرابی کا بہترین حل بن سکتی ہے۔‘

امریکی غیر منافع بخش تنظیم ’یونائیٹڈ نیٹ ورک فار آرگن شیئرنگ‘ کے اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ سے زیادہ امریکی شہریوں کو زندگی بچانے والے اعضا کی پیوند کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔

مگر سنہ 2023 میں وفات پا جانے والے اور زندہ افراد کی جانب سے اعضا عطیہ کرنے کی تعداد صرف 23500 تھی۔

ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں ہر روز 17 افراد کسی عضو کے انتظار میں وفات پا جاتے. اور ٹرانسپلانٹ کے لیے گردوں کی ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

اگرچہ یہ سور کا پہلا گردہ ہے. جسے انسان میں ٹرانسپلانٹ کیا گیا لیکن یہ سور کا پہلا عضو نہیں، جسے ٹرانسپلانٹ کے طریقہ کار میں استعمال کیا گیا ہے۔

دو دیگر مریضوں کو سور کا دل ٹرانسپلانٹ کیا گیا تھا. تاہم یہ طریقہ کار ناکام رہے. کیونکہ جن افراد کو یہ لگائے گئے وہ چند ہفتوں بعد ہی وفات پا گئے تھے۔

ایک مریض کے جسم پر ایسے نشانات تھے جن سے ظاہر ہوا کہ ان کے مدافعتی نظام نے عضو کو مسترد کر دیا تھا. اور یہ ٹرانسپلانٹس میں ایک بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.