ہمیں برسوں سے اس بات کا علم ہے. کہ ہم ایک اچھے طرز زندگی کی مدد سے طویل عرصے تک صحت مند رہ سکتے ہیں۔
سائنسدان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں. کہ عمر کے ساتھ ہمارے دماغ میں کیا تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ایسے میں کیا جدید ٹیکنالوجی ہمارے. دماغ کی عمر کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے؟
ہالینڈ میں پیدا ہونے والی 76 سالہ خاتون میگائیکے اور ان کے شوہر ٹام امریکی شہر لاس اینجلس سے ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع لوما لنڈا میں رہتے ہیں۔ ایک صبح انھوں نے مجھے ناشتے پر خوش آمدید کہا۔
ناشتے میں چِیا سیڈس، دلیا اور بیریاں دی گئیں۔ کوئی میٹھی پروسیسرڈ چیز اور کافی پیش نہیں کی گئی۔ ناشتہ بالکل خالص غذاؤں پر مشتمل تھا۔
ڈاکٹر کیا کہتے ہیں؟
لوما لنڈا کو دنیا کے نام نہاد بلیو زون مقامات میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے. جہاں لوگوں کی اوسط عمر زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں شہر کی ’سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ‘ برادری رہتی ہے. جن کی عمریں زیادہ ہوتی ہیں. اور وہ سب سے طویل عرصے تک زندہ رہتے ہیں۔
یہ لوگ عام طور پر شراب اور کیفین کا استعمال نہیں کرتے، سبزی خور اور ویگن چیزیں کھاتے ہیں. اور اپنے جسم کا خیال رکھنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ وہ اسے اپنا ’ہیلتھ میسیج‘ کہتے ہیں. اور اس کی وجہ سے انھیں شہر بھر میں پہچان بھی ملی ہے۔
یہ قصبہ طویل عرصے سے تحقیق کا موضوع رہا ہے. کہ یہاں کے لوگ کس طرح لمبی زندگی پاتے ہیں۔
لوما لنڈا یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر گیری فریزر نے کہا کہ سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ کمیونٹی کے لوگ نہ صرف لمبی عمر کی توقع کر سکتے ہیں بلکہ ’صحت کی مدت‘ میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں۔ خواتین چار سے پانچ سال اضافی صحت مند زندگی گزارتی ہیں. اور مرد اوسط سے سات سال زیادہ جیتے ہیں۔
ٹام اور میگائیکے زندگی کے آخری مراحل میں شہر میں رہنے آئے تھے لیکن اب دونوں کمیونٹی میں ضم ہو گئے ہیں۔
لوما لنڈا میں لوگ بے تکلف رہتے ہیں۔ یہاں کے لوگ صرف صحت مند زندگی گزار رہے ہیں اور وہ اس کمیونٹی کی قدر کرتے ہیں جو انھیں صحت مند زندگی کا مذہب فراہم کرتی ہے۔ لوگوں کو اکثر صحت مند زندگی، موسیقی اور ورزش کے بارے میں معلومات دی جاتی ہیں۔
عمارت
جوڈی یہاں کی ایک عمارت میں 112 افراد کے ساتھ رہتی ہیں۔ جوڈی نے بی بی سی کو بتایا کہ عمارت میں ہمیشہ دل و دماغ کو روشن کرنے والی گفتگو ہوتی ہے۔
جوڈی نے کہا کہ ’میں نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ سماجی ہونا آپ کے دماغ کے لیے کتنا اہم ہے۔ اس کے بغیر، آپ کا دماغ سکڑ جاتا ہے۔‘
سائنس نے بہت پہلے ہی سماجی میل جول کے فوائد کو پہچان لیا تھا۔ لیکن اب یہ شناخت کرنا ممکن ہے کہ کس کا دماغ توقع سے زیادہ تیزی سے بوڑھا ہو رہا ہے تاکہ مستقبل میں اس کا پتا لگا کر اس کا علاج کیا جا سکے۔
ٹیکنالوجی کی بدلتی ہوئی دنیا میں اے آئی اور ڈیٹا کی مدد سے میڈیکل کے شعبے کو بھی مدد ملے گی۔
دماغ پر تحقیق کرنے والے سائنسدان کیا کہتے ہیں؟
کیلیفورنیا میں بی بی سی نے دماغی صحت پر تحقیق کرنے والے سائنسدانوں اور ماہرین سے ملاقات کی۔ یہ لوگ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا ہم دماغ کے بوڑھے ہونے کے عمل کو تبدیل کر سکتے ہیں یا نہیں۔
یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں جیرونٹولوجی اور کمپیوٹیشنل بایولوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر آندرے اریمیا نے ایسے کمپیوٹر ماڈل پیش کیے جو ہمارے دماغ کی عمر اور ان کے زوال کا اندازہ لگاتے ہیں۔
انھوں نے ایم آر آئی سکین، 15 ہزار دماغوں کے ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے یہ ماڈل تیار کیا تھا تاکہ صحت مند عمر رسیدہ دماغ اور ڈیمینشیا جیسے مرض میں مبتلا دماغوں کو سمجھا جا سکے۔
انھوں نے کہا کہ یہ پیٹرن کو دیکھنے کا ایک اچھا طریقہ ہے جس سے ہم بحیثیت انسان پکڑ نہیں سکتے لیکن مصنوعی ذہانت اس کو پکڑنے کے قابل ہے۔
کیلیفورنیا پہنچنے سے پہلے میں نے اپنا ایم آر آئی سکین کروایا تھا۔ اس کا تجزیہ کرنے کے بعد پروفیسر اریمیا نے بتایا کہ میرے دماغ کی عمر میری اصل عمر سے آٹھ ماہ زیادہ ہے۔ تاہم، پروفیسر اریمیا نے مشورہ دیا کہ نتائج میں دو سال تک کی کمی بیشی ہو سکتی ہے۔