میٹرک کے بعد ہی میری شادی ہو گئی۔ پھر میرے شوہر نے دوسری شادی کر لی تو میں نے اپنی اور بیٹی کی ذمہ داری خود سنبھال لی۔ میری غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ کوئی میرا اور میری بیٹی کا بوجھ اٹھائے۔ اس کے بعد میں نے نہ صرف تعلیم مکمل کی بلکہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے پولیس میں بحیثیت اسسٹنٹ سب انسپکٹر شمولیت اختیار کی۔‘
یہ کہنا ہے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی سب انسپکٹر صوبیہ خان کا، جنھیں گزشتہ دنوں کوئٹہ کے کینٹ پولیس سٹیشن کا ایس ایچ او تعنیات کیا گیا ہے اور انھوں نے چارج سنبھال کر اپنے کام کا آغاز بھی کر دیا ہے۔
ڈی آئی جی کوئٹہ فدا حسین کے مطابق صوبیہ خان کی تعنیاتی میرٹ اور ان کی قابلیت کو مدنظر رکھ کر کی گئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پولیس میں خواتین افسران اور اہلکاروں کو میرٹ پر آگے بڑھ کر خدمات انجام دینے کا موقع ملنا چاہیے۔ امید کرتے ہیں کہ صوبیہ خان اپنے فرائض کو احسن طریقے سے ادا کریں گی۔‘
’گھر والے مجھے قصور وار ٹھراتے رہے‘
صوبیہ خان کہتی ہیں کہ پولیس میں شمولیت سے پہلے اور شادی کے بعد انھیں اپنی زندگی میں بہت محنت کرنا پڑی تھی۔
’صاحب (شوہر) نے خاموشی سے شادی کی، رابطہ اور ناطہ توڑا اور الزام بھی مجھے دیا جاتا تھا۔‘
صوبیہ خان بتاتی ہیں کہ خاندان میں روایات کی پاسداری کو بھی بہت اہمیت دی جاتی ہے۔
’میرے والد مرحوم ایک نجی بینک میں نائب صدر تھے، دادا فوج میں ڈاکٹر میں تھے لیکن میں نے میٹرک کیا تو سنہ 2000 میں خاندان ہی میں میری شادی کر دی گئی۔ میری بیٹی پیدا ہوئی تو میں کچھ دن بعد میں والدین کے گھر آئی مگر صاحب مجھے واپس لے جانے کا نام بھی نہیں لے رہے تھے۔ میں یا گھر والے رابطہ کرتے تو کہتے کہ میں بیرون شہر ہوں، جلد ہی واپس لے جاؤں گا۔‘
صوبیہ کا کہنا تھا کہ ’جب کافی عرصہ گزر گیا تو گھر والوں نے مجھے ہی مورد الزام ٹھرایا کہ کیا وجہ ہے کہ تمہارا شوہر تمہیں والدین کے گھر سے نہیں لے کر جاتا۔‘
’پھر میری ایک عزیزہ خاتون نے میرے شوہر کی دوسری شادی کی تصاویر فراہم کر دیں، جس کے بعد طے ہوا کہ میں پہلی بیوی ہی رہوں گی اور وہ دوسری مگر میں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اپنی زندگی گزاریں گے اور میں اپنی زندگی گزاروں گی۔‘
صوبیہ خان کہتی ہیں کہ وہ کم عمر تھیں مگر ایک بیٹی کی ماں تھیں۔ ’مجھے عدالتوں میں اپنا حق لینے کے لیے نہیں جانے دیا گیا۔ بیٹی میری تھی اور میری ہی ذمہ داری تھی۔‘
ملازمت اور تعلیم ساتھ ساتھ
صوبیہ خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ایک سکول میں معاون استاد کے طور پر ملازمت اختیار کر لی اور اسی دوران وہ ایف اے کر کے فل ٹائم استاد بن گئیں۔
’لیکن گزارہ نہیں ہوتا تھا۔ شام میں ایک ریڈیو سٹیشن میں کام تلاش کر لیا، جہاں پر مجھے ایک گھنٹے کے سو روپے دیے جاتے اور میں رات تک وہاں پر کام کرتی تھی۔ زیادہ کام کرنے کی کوشش کرتی کہ زیادہ پیسے مل سکیں۔‘
صوبیہ خان کہتی ہیں کہ ’میں سکول اور ریڈیو جاتی اور جب موقع ملتا تو شام کو پڑھائی کرتی۔ میری بیٹی ہر وقت میرے پاس ہوتی تھی۔ میرے علاوہ اس کی کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں تھا۔ یہاں تک کہ پولیس فورس میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد بھی بیٹی میرے ساتھ ہی ہوتی تھی۔‘
صوبیہ کا کہنا تھا کہ سنہ 2009 میں بلوچستان پبلک سروس کمیشن کی ملازمتوں کا اعلان ہوا تو اپنی ایک عزیزہ کے کہنے پر انھوں نے اپلائی کر دیا۔
’پبلک سروس کمیشن کا امتحان سی ایس ایس کے امتحان سے کسی طرح بھی کم نہیں تھا۔ میں نے اسلام آباد پبلک سروس کمیشن اور بلوچستان پبلک سروس دونوں کے لیے امتحان دیا۔‘
خواتین ڈسیک کا آغاز
صوبیہ خان کہتی ہیں کہ وہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں کامیاب ہو گئیں، جس کے بعد انھوں نے پولیس فورس ہی کو ترجیح دی۔
’میں دراصل بچپن ہی سے ٹام بوائے ٹائپ تھی۔ کسی سے ڈرتی ورتی نہیں تھی۔ حوصلہ بھی بہت تھا اور ہمت بھی۔ بس دل چاہا کہ نوکری ہی کرنی ہے تو پولیس کیوں نہیں۔‘
صوبیہ خان نے بتایا کہ جب وہ پولیس کی تربیت مکمل کر چکی تو انھیں اسلام آباد سے بھی کال آ گئی کہ انھیں وہاں پر بھی منتخب کر لیا گیا ہے۔
’میں نے ان سے پوچھا کہ کیا مجھے دوبارہ تربیت لینا پڑے گئی تو انھوں نے بتایا کہ اسلام آباد پولیس کے لیے دوبارہ تربیت حاصل کرنا ہو گی۔ میں نے سوچا کہ اب اسلام آباد جا کر دوبارہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز شروع کرنا تھوڑا مشکل ہو گا، اس لیے بلوچستان پولیس ہی کو ترجیح دی۔‘
صوبیہ خان کہتی ہیں کہ انھوں نے پولیس کے شعبے ڈسڑکٹ اور سپیشل برانچ میں سے سپیشل برانچ کو چنا تھا مگراس وقت کوئٹہ اور بلوچستان میں خواتین افسران کی تعداد کم تھی۔
’اسی وجہ سے مجھے ڈسڑکٹ میں خدمات انجام دینے کو کہا گیا۔ مجھے اس وقت کے ڈی آئی جی احسن محبوب نے کہا کہ خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے خواتین ڈیسک قائم کرنا ہے۔‘
صوبیہ خان نے کوئٹہ کے تھانہ سٹی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر وہ ڈیسک قائم کیا۔
’مختلف مسائل آئے مگر افسران کی مدد حاصل رہی جس کے نتیجے میں وہ ڈیسک انتہائی کامیابی سے چلا، یہاں تک کہ ایک دن میں دس دس رپورٹس آتی تھیں۔ کئی رپورٹس پر مجھے تفتیش کرنے کا کہا جاتا۔ اس دوران کئی ناخوشگوار واقعات بھی ہوئے مگر میری تفتیش کے نتیجے میں کئی ملزماں کیفر کردار تک پہنچے۔‘
صوبیہ خان کہتی ہیں کہ ان کی دلی خواہش تھی کہ وہ سی ایس ایس کا امتحان بھی دیں مگر ذمہ داریوں کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ یہ ممکن نہ ہو سکا۔
کئی مرتبہ بال بال بچی
صوبیہ خان نے اپنے فرائض کی ادائیگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایک مرتبہ انھیں ایک ہاسٹل میں تلاشی کا کام دیا گیا۔
’جب ہم موقع پر پہنچے تو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ کئی خواتین نے ہمیں گھیرے میں لے لیا۔ وہ ہمارے بال کھنچ رہی تھیں اور ناخن مار رہی تھیں۔‘
’وہ ایک حساس معاملہ تھا۔ اسی دوران وہاں فائرنگ شروع ہو گئی۔ اب صورتحال یہ تھی کہ میں اور میرے ساتھ خاتون افسر ان خواتین کے درمیان تھے۔ ہم دونوں مل کر دس دس خواتین سے نمٹنے کی کوشش کر رہی تھیں اور اوپر سے دونوں اطراف سے فائرنگ ہو رہی تھی۔‘
صوبیہ خان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر ہم نے حکمت عملی اختیار کی اور ان خواتین کو بڑے طریقے سے پولیس موبائل وین تک پہنچایا۔
ان کا کہنا تھا ایک مرتبہ انھوں نے کوئٹہ سے باہر ایک آپریشن کیا۔ ’وہ ایک پہاڑی علاقہ تھا۔ ابھی ہم اس مقام کے قریب ہی پہنچے تھے کہ فائرنگ شروع ہو گئی۔ ہم دو خواتین تھیں جبکہ باقی مرد اہلکار تھے۔ ہم دونوں ایک ٹیلے کے پاس بیٹھ گئیں۔‘
’اس دوران گولیاں بالکل ہمارے پاس سے گزر کر جاتی تھیں۔ گولیاں اتنے قریب سے گزرتی کہ ہم گولیوں کو دیکھ سکتی تھیں۔ ہمارا ایک جوان گولی لگنے سے زخمی ہوا۔ وہ گرنے ہی والا تھا کہ ہم دونوں نے دوڑ کر اس کو گرنے سے بچا لیا۔ اس دوران فائرنگ ہوئی اور گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر گئیں مگر بھاگ کر جگہ تبدیل کرتے ہوئے میں پتھروں پر گر گئی اور شدید چوٹیں لگیں مگر پھر بھی اپنے حواس برقرار رکھے اور پورے آپریشن میں ساتھ رہی۔‘
’پستول تان لیا گیا‘
صوبیہ خان نے ایک بچے کے اغوا کے کیس کی تفتیش کے بارتے میں بتایا کہ ’کچھ عرصہ قبل ایک بچے کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا تھا اور میں بھی اس کیس کی تفتیش میں شامل تھی۔‘
’اس کیس کی تفتیش میں پتا چلا کہ ایک شخص کی بچے کے خاندان کو بہت زیادہ کالز موصول ہوئی ہیں۔ اب اس بندے سے تفتیش بھی لازم تھی۔ ہمیں اس کا موبائل چند منٹ کی تفتیش کے لیے چاہیے تھا۔ ایسا ہر صورت میں خاموشی اور رازداری سے کرنا تھا۔‘
صوبیہ خان کہتی ہیں کہ ’اس وقت میں نے کسی نہ کسی طرح اس شخص سے رابطہ قائم کیا اور اس کو ایک مقام پر ملنے کے لیے بلا لیا، جہاں پر اردگرد سادہ کپڑوں میں پولیس اہلکاروں کے علاوہ ہمارے افسران بھی خاموشی سے دبکے بیٹھے تھے۔‘
’مجھے کسی طرح اس شخص کے دونوں موبائل چند منٹوں کے لیے اپنے قبضے میں کرنا تھے۔ میں نے مختلف طریقے اختیار کیے کہ کسی طرح موبائل حاصل کر لوں مگر مجھے یہ پتا نہیں تھا کہ اس کے پاس پستول بھی موجود ہے۔ کافی دیر بعد موقع ملا تو میں نے دونوں موبائل اپنے قبضے میں کر لیے۔‘
’اس شخص نے پہلے مجھ پر پستول تانا اور پھر فائر کرنا چاہا تو میں تیزی سے بچ نکلی۔ اس موقع پر نقاب اور ایڑھی والی چپل پہنی ہوئی تھی۔ میرا نقاب کسی جگہ پھنسا اور پھٹ گیا اور میں گر گئی۔ اس نے فائر کر دیا۔ سادہ کپڑوں میں پولیس اہلکاروں نے فوراً ہی اس کو قابو کر لیا۔ اس شخص کے موبائل ڈیٹا کی مدد سے ہی پھر ہم کیس کی تفتیش کرنے میں کامیاب ہوئے۔‘
یہ بھی پڑھیے
’اگر لڑکیوں کو گھر والوں کی حمایت حاصل ہو تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں‘
پاکپتن کی ایس ایچ او: ‘کم از کم میں ان درندوں کو نہ چھوڑوں’
پاکستان کی پہلی جینڈر ایکوالٹی آفیسر: ’گھر والوں کو لگتا تھا پولیس کی نوکری کچھ دنوں کا شوق ہے‘
’لوگ ایسے گھورتے جیسے کھا جائیں گے‘
صوبیہ خان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں جیسے خضدار، آوران، لبیسیلہ اور گڈانی میں بھی ان کے تبادلے ہوئے۔
’میں نے مختلف شعبوں میں، جن میں بم ڈسپوزل کا شعبہ بھی شامل ہے، خدمات انجام دی ہیں۔ سنہ 2013 میں مجھے امریکہ میں تربیت کے لیے منتخب کیا گیا۔ واپسی پر کوئٹہ میں خدمات انجام دیں اور سنہ 2018 میں میری سب انسپکٹر کے عہدے پر ترقی ہوئی۔‘
’اس وقت کے ہمارے افسر عبدالرزاق چمیہ نے مجھے کہا کہ ٹریفک پولیس میں خدمات انجام دینی ہیں۔ مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ میں بلوچستان ٹریفک پولیس کی پہلی خاتون سارجنٹ ہوں۔‘
’صوبیہ خان کا کہنا تھا کہ جب میں سڑک پر اپنے فرائض ادا کر رہی ہوتی تو لوگ مجھے ایسے گھورتے تھے، جیسے کھا جائیں گے۔ اس وقت بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی کو اگر روکتی تو وہ بحث شروع کر دیتا تھا مگر میں نے پھر اس صورتحال پر قابو پانے کا فیصلہ کر لیا۔‘
’پہلے دن ہی دس مسائل حل کیے‘
صوبیہ خان کہتی ہیں کہ گزشتہ دنوں حکم ملا کہ ان کو اب بحیثیت ایس ایچ او خدمات سرانجام دینی ہیں۔
’مجھے پہلے سے کوئی اندازہ نہیں تھا۔ میری خواہش تو تھی کہ میں فرنٹ سے لیڈ کروں مگر مجھے پتا نہیں تھا کہ موقع ملے گا۔ جب پتا چلا تو بہت خوشی ہوئی اور خود کو نئے چیلنج کے لیے تیار کیا۔‘
صوبیہ خان کا کہنا تھا کہ پہلے دن ہی ڈیوٹی کے دوران دس مختلف قسم کے لڑائی جھگڑے کے واقعات اور مسائل کو حل کیا۔
صوبیہ خان کا کہنا ہے کہ انھیں افسران کی طرف سے بہت مدد مل رہی ہے اور تھانے کے لوگ بھی تعاون کررہے ہیں مگر وہ ایک مثبت تبدیلی لانا چاہتی ہیں۔
’ایک تو تھانے میں خواتین اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ کرنے کا سوچا ہے اور دوسرا لوگوں کے مسائل حل کرنے اور جرائم کے خلاف جہاد کرنا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے دونوں میں لوگ ایک بہت ہی مثبت تبدیلی دیکھیں گے۔‘