لوپیانو کو 2002 میں دماغ کی رسولی کی تشخیص ہوئی تھی اور انہوں نے اس وقت تک بیماری کا تعلق سکول سے نہیں جوڑا جب تک کہ ان کی بیوی اور بہن بیمار نہ ہو گئیں۔
امریکہ میں ایک ہی ہائی سکول میں تعلیم حاصل کرنے والے 100 سے زیادہ لوگوں میں میں دماغ کے سرطان کی تشخیص ہوئی ہے۔ خدشہ ہے کہ پہلے جوہری بم کی تیاری میں استعمال ہونے والی یورنیم سے تابکاری کی زد میں آنے والی زمین نے انہیں بیماری میں مبتلا کیا۔
برطانوی اخبار دا ڈیلی میل میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق گلیوبلاسٹوما نامی سرطان میں مبتلا ہونے والے تمام افراد ریاست نیوجرسی کے علاقے ووڈبرج میں کولونیا ہائی سکول میں پڑھنے یا کام کرنے جاتے رہے ہیں۔
لیوبلاسٹوما کینسر کی خاص قسم ہے۔ سرطان اور یورنیم سے ہونے والی تابکاری کے درمیان تعلق کا اسی وقت پتہ چلا جب سکول کے سابق طالب علم ال لوپیانو جو اب ماحولیاتی سائنس دان ہیں نے دیکھا کہ جن لوگوں کو وہ جانتے ہیں وہ بیمار ہو رہے ہیں۔
ال لوپیانو نے انکشاف کیا کہ 20 سال قبل ان کے سر میں رسولی تھی۔ اس سے پہلے ان کی اہلیہ اس مرض میں مبتلا ہوئیں۔ اسی طرح ان کی بہن بھی دماغی رسولی کا شکار ہو کر فروری میں صرف 44 سال کی عمر میں چل بسیں۔
50 سالہ سائنس دان کا دعویٰ ہے کہ اس مرض کا سراغ نمونے لینے والے اس قریبی پلانٹ سے لگایا جا سکتا ہے جہاں مین ہٹن پراجیکٹ کے تحت پہلے ایٹم بم کے لیے یورنیم استعمال کی گئی تھی۔
ال لوپیانو نے اپنی بہن ان کے بستر مرگ پر عہد کیا تھا کہ وہ بیماری کی وجہ کا پردہ فاش کریں گے انہوں نے مزید کہا: ’جب تک مجھے جواب نہیں مل جاتا میں چین سے نہیں بیٹھوں گا۔‘
ال لوپیانو کے اخذ کردہ نتائج نے سکول میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے اور سکول کے 13 سو موجودہ طلبہ میں سے بہت سے پریشان ہو گئے ہیں۔ ووڈ برج کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ ال پیانو کے دعووں پر غور کر رہے ہیں تا کہ بیماری کی بنیادی وجہ کا تعین کیا جا سکے۔
ال لوپیانو کو 2002 میں دماغ کی رسولی کی تشخیص ہوئی تھی اور انہوں نے اس وقت تک بیماری کا تعلق سکول سے نہیں جوڑا جب تک کہ ان کی بیوی اور بہن بیمار نہ ہو گئیں۔ ان کی بہن انجیلا ڈی سیلیس مارچ میں جان کی بازی ہار گئیں جس کے بعد لوپیانو میں نے اس سلسلے تحقیق کی تحریک پیدا ہوئی۔ انہوں نے مریضوں کے ایک چھوٹے سے گروپ سے کام شروع کیا لیکن جیسے جیسے مریضوں کی تعداد بڑھتی گئی انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ یا تو ووڈبرج کے ہائی سکول میں کام کرتے تھے یا پڑھتے رہے ہیں۔
لوپیانو نے اپنی تحقیق کے بارے میں فیس بک پر پوسٹ کی اور جلد ہی محسوس کیا کہ متاثرہ افراد کی تعداد آسمان کو چھو رہی ہے۔ انہوں نے سی بی ایس نیوز کو بتایا: ’میں نے تحقیق کرنا شروع کیا تو مریضوں کی تعداد تین پانچ، پانچ سات اور سات سے 15 ہو گئی۔‘
’گذشتہ سال اگست تک مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ میری بہن کو پتہ چلا کہ خود اسے دماغی رسولی ہے۔ بدقسمتی سے مرض چوتھے سٹیج کا گلیوبلاسٹوما کینسر نکلا۔ دو گھنٹے بعد ہمیں اطلاع ملی کہ میری بیوی کو بھی بنیادی دماغی رسولی ہے۔‘
رواں سال کے شروع میں لوپیانو کا ان باکس سکول کے سابق ہم جماعتوں اور اساتذہ کے پیغامات سے بھر گیا کہ وہ بھی دماغ کی انوکھے رسولی کے مسئلے سے نمٹ رہے ہیں۔ ان لوگوں کی اکثریت نے 1975 اور 2000 کے درمیان گریجویشن کی لیکن ایک کیس تازہ یعنی 2014 کا ہے۔
لوپیانو نے مزید کہا: ’مجھے جو چیز تشویش ناک لگتی ہے وہ یہ ہے کہ بنیادی دماغی رسولیوں ساتھ واقعی صرف ایک ماحولیاتی تعلق ہے اور وہ برقی چارج رکھنے والے ایٹمز کی تابکاری۔ یہ آلودہ پانی نہیں ہے۔ یہ ہوا نہیں ہے۔ یہ مٹی میں موجود کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ بری عادتوں کی وجہ سے ہمارے ساتھ ہونے والا کچھ نہیں ہے۔‘
سٹیسی راموس ان لوگوں میں سے ایک تھیں جنہوں نے لوپیانو سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ جب وہ بیمار ہوئی تو ان کی عمر صرف 41 سال تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’41 سال کی عمر میں مجھے پتہ چلا کہ مجھے ایک بہت ہی منفرد نرم بافتوں والا ضرر رساں سرطانی ٹیومر سپنڈل سیل کارسینوما ہے جس نے میری آنکھ میں آنسوؤں کی نالی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جہاں سے ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ اس کا آغاز ہوا۔ (میں سائی نس کینال کا نصف حصہ کھو چکی ہوں) رسولی ناک کے پچھلے حصے، میرے کان کی نالی میں یا اس کی طرف بڑھنا شروع ہو گئی اور میرے دماغ کے قریب پہنچنے لگی۔ مجھے تین سے زیادہ سال پہلے سے کچھ علامات تھیں لیکن اس وقت تک پتہ نہ چلا جب تک مرض بڑھ نہ گیا۔ مجھے اس وقت دائیں کان اور کینسر والی طرف ٹیوب میں مسائل کا سامنا ہے جس کے بارے میں میں پریشان ہوں۔‘