اُس براعظم کی دریافت جو 15 کروڑ سال پہلے روئے زمین سے غائب ہو گیا تھا

آرگولینڈ نامی براعظم ایک معمہ تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تقریباً 15 کروڑ سال قبل روئے زمین سے غائب ہو گیا تھا۔ لیکن ایسا کیوں ہوا تھا؟ یہ سوال برسوں سے ماہرین ارضیات کے لیے ایک پہلی جیسا تھا، جو حال ہی میں حل ہوئی ہے۔

نیدرلینڈ کی اٹریچٹ یونیورسٹی کے ماہرین نے اعلان کیا ہے کہ انھوں نے اس کھوئے ہوئے براعظم کو تلاش کر لیا ہے جس نے کئی برسوں تک سائنس کی دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈالے رکھا۔

تقریبا پانچ ہزار کلومیٹر طویل زمین کا یہ ٹکڑا، جو مغربی آسٹریلیا سے ٹوٹ کر غائب ہو گیا تھا، کسی زمانے میں سپر براعظم گونڈوانا کا حصہ تھا جس میں لاطینی امریکہ، افریقہ، انڈیا اور انٹارکٹیکا بھی شامل تھے۔

سائنسدانوں کو اس کے وجود کے بارے میں اس لیے علم ہوا کیوں کہ ان کو آسٹریلیا سے اس کے جدا ہونے کے شواہد ملے تھے۔ سب سے واضح ثبوت زیر سمندر ایک دیوہیل گڑھا تھا جو آسٹریلیا کے مغرب میں ’آرگو ابیسل پلین‘ کہلاتا ہے۔ اور اسی کی وجہ سے اس براعظم کا نام آرگو لینڈ پڑا۔

گونڈوانا کا حصہ رہنے والے دیگر براعظموں کو دیکھ کر باآسانی پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی زمانے میں ایک ہی تھے جیسا کہ افریقہ اور لاطینی امریکہ۔

لیکن آرگولینڈ کی پہیلی کو ایلدرٹ ایڈوکیٹ نامی ماہر ارضیارت کی سربراہی میں ایک ڈچ ٹیم نے حل کیا جن کے مطابق یہ براعظم آسٹریلیا سے ٹوٹ جانے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا اور پھر اس نے مختلف جزائر کی شکل لے لی۔

اس کا ایک ٹکڑا زیر سمندر ڈوب گیا تھا اور اب جنوب مشرقی ایشیا کے قریب سمندری پلیٹوں کی شکل میں موجود ہے۔ ڈچ ٹیم کی تحقیق کے مطابق اسی براعظم کے ٹکڑے انڈونیشیا اور میانمار کے جنگلات کے نیچے بھی موجود ہیں۔

آرگولینڈ

لیکن یہ براعظم ملا کیسے؟

ان سائنسدانوں کی ٹیم نے سات سال تک مختلف کمپیوٹر ماڈلز کا تجربہ کیا۔ ایلدرٹ کا کہنا ہے کہ ’ہمارے سامنے معلومات کے جزائر تھے اور اسی لیے ہماری تحقیق میں اتنا وقت لگا۔‘

ایک پریس ریلیز میں انھوں نے بیان دیا کہ ’آرگو لینڈ بہت سے ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا تھا. اور اسی لیے اس کے سفر کو جانچنا مشکل ہوا۔‘

لیکن جب ایک بار ان کو یہ بات سمجھ آ گئی کہ یہ براعظم زمین کے ایک ٹکڑے کی شکل میں باقی نہیں رہا بلکہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے تو اس ٹیم کی اگلی منزل آسان ہو گئی۔

اس ٹیم نے اب ایک نیا نام بھی دیا ہے جو ’آرگوپیلاجو‘ ہے۔

والس کی لکیر

اس براعظم کی پہلی کو حل کرتے ہوئے. ان سائنسدانوں نے شاید ایک اور معمے کا سراغ بھی لگا لیا ہے. جو ماہرین حیاتیات کے لیے کافی بڑا عجوبہ تھا۔

اسے والس کی لکیر یا ’والس لائن‘ کہتے ہیں. جو ایک ان دیکھی سرحد ہے. اور جنوب مشرقی ایشیا اور آسٹریلیا کی حیاتیات کو الگ کرتی ہے۔

ماہرین نے دیکھا کہ اس لکیر کے دونوں اطراف میں مختلف اقسام کے جانور پائے جاتے ہیں جو گھلتے ملتے نہیں ہیں۔ یہ لکیر انڈونیشیا کے جنوب میں واقع ہے۔

اس کے مغرب میں ہاتھی، ٹائیگر جیسے جانور ہیں. جو مشرق میں نہیں، ایسے جانور جن کو عام طور پر آسٹریلیا کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔

ایلدرٹ کا کہنا ہے کہ سماٹرا، جاوا اور بورنیو کے جزائر سمیت ملائے میں یوروایشیئن جانور ہیں. جبکہ سلاویسی میں آسٹریلشیئن جانور ہیں جو یوروایشیئن اور آسٹریلیئن جانوروں کا امتزاج ہیں۔

’اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی سلاویسی کا مغربی یوروایشیئن حصہ آسٹریلیا کے جنوب مشرقی حصے سے ایک زمانے میں جڑ گیا تھا جیسا کہ ہم نے دکھایا ہے۔‘

آرگولینڈ کو دریافت کرنے والوں کے مطابق جب یہ براعظم آسٹریلیا سے الگ ہوا تو اپنے حصے کے جانور ساتھ ہی لے گیا اور جنوب مشرقی ایشیا سے جا جڑا۔

شواہد کے مطابق ایک زمانے میں جنوب مشرقی ایشیا میں آباد انسان بھی اس سرحد کے آر پار نہیں جاتے تھے۔

اسی تحقیق میں شامل ہنسبرجن کا کہنا ہے. کہ ہم نے جس ماڈل سے اس براعظم کو حساب لگایا وہ ماحولیات کو سمجھنے میں بھی مددگار ہے۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.