یوکرین کے کسانوں کے پاس اندازاً دو کروڑ ٹن اجناس ذخیرہ ہیں جنھیں وہ بین الاقوامی منڈیوں تک پہنچانے سے قاصر ہیں اور نئی فصلیں آنے کے لیے تیار ہیں۔
وہ اپنی پیداوار کس طرح ان لوگوں کو پہنچا سکتے ہیں جن کو اس کی اشد ضرورت ہے جبکہ عالمی منڈیوں میں اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اس سال فروری میں نادیہ سٹیٹسیوک ایک منافع بخش سال کی توقع کر رہی تھیں۔ موسم سنہ 2021 میں بہت موافق رہا یوکرین کے وسطی حصہ میں چرکسی کے علاقے میں ان کے چھوٹے سے فارم پر انھوں نے گندم، مکئی اور سورج مکھی کے بیجوں کی زبردست فصل کاشت کی تھی۔
بین الاقوامی منڈی میں اجناس کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے انھوں نے ان فصلوں کا کچھ حصہ ذخیر کر لیا تاکہ اس کو بعد میں فروخت کر کے زیادہ منافع کمایا جا سکے۔ اس کے بعد روس نے یوکرین پر چڑہائی کر دی۔
ملک کے جس علاقے میں ان کا فارم تھا اس پر جنگ کا زیادہ اثر نہیں پڑا تھا اور ملک کے اسی فیصد زرعی رقبے کی طرح ان کا علاقہ بھی یوکرین کے قصبے میں ہی تھا۔ لیکن ان کے فارم پر ملکی حالت کا شدید اثر پڑا۔
انھوں نے کہا کہ جب سے حملہ ہوا ہے وہ اپنی زرعی پیداوار کو فروخت نہیں کر پائے ہیں۔ زرعی اجناس کی قیمتیں جنگ سے قبل کے مقابلے میں آدھی رہ گئی ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ یورپ اور باقی دنیا میں ہو سکتا ہے خوراک کی کمی ہو لیکن یہاں جن حالت نے انھیں جکڑ لیا ان میں وہ اپنی پیداوار کو باہر نہیں لے جا سکتے۔
یوکرین کے وزیرِ خارجہ دمترو کولیبا نے روس کی طرف سے اس پیش کش کو کہ وہ یوکرین کے محاصرے کو روس پر عائد اقتصادی پابندیوں کو اٹھانے کی شرط ختم کرنے کو تیار ہیں بلیک میل کی کوشش قرار دیا ہے۔
یوکرین اپنی حیثیت سے زیادہ اجناس برآمد کرتا ہے اور سورج مکھی کے تیل کی عالمی برآمدات میں اس کا حصہ 42 فیصد ہے، مکئی میں اس کا حصہ 16 فیصد ہے اور گندم میں نو فیصد ہے۔
بہت سے ملکوں کا انحصار یوکرین پر ہے۔ لبنان اپنی گندم کا 80 فیصد یوکرین سے درآمد کرتا ہے۔ انڈیا خوردنی تیل کا 76 فیصد۔ پاکستان میں درآمد ہونے والی گندم کا اڑتالیس فیصد بھی یوکرین سے آتا ہے۔
اقوام متحدہ کا پروگرام برائے خوراک جو بھوک سے متاثرہ ملکوں مثال کے طور پر ایتھوپیا، یمن اور افغانستان کو خوراک مہیا کرنے کے لیے 40 فیصد گندم یوکرین سے لیتی ہے۔
جنگ سے پہلے بھی عالمی سطح پر خوراک کی سپلائی بہت نازک تھی۔
گندم اور خودرنی تیل کی پیداوار گزشتہ کینیڈا میں قحط کی وجہ سے متاثر ہوئی تھی اور جنوبی امریکہ میں سویابین اور مکئی کی فصلیں متاثر ہوئی تھیں۔
کووڈ کی وباء کا بھی اس پر اثر پڑا۔ انڈونیشیا میں ملائشیا میں مزدوروں کی کمی کی وجہ سے پام آئل کی پیداوار متاثر ہوئی جس کی وجہ سے عالمی سطح پر خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا۔
اس سال کے آغاز میں دنیا کے بہت سی اشیاء خوردنی کی قیمتیں اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ رہی تھیں۔ بہت سے لوگوں کو امید تھی کہ یوکرین کی فصلیں عالمی کمی کو پورا کرنے میں مدد کر سکتی ہیں۔
لیکن روس کے حملے سے یہ سب تعطل کا شکار ہو گیا۔
یوکرین کی وزارت زراعت کا کہنا ہے کہ ملک میں اب دو کروڑ ٹن اناج پھنسا ہوا ہے۔
جنگ سے پہلے، یوکرین کی 90% برآمدات بحیرہ اسود کی بندرگاہوں کے ذریعے بھیجی جاتی تھیں، جہاں سے یہ طویل فاصلہ طے کرنے کے لیے بڑے بڑے ٹینکروں میں لوڈ کی جا سکتی ہیں ۔ چین یا انڈیا ۔ اور پھر بھی منافع بخش ہوتا ہیں۔ لیکن اب سب بند ہیں۔ روس نے یوکرین کی ساحلی پٹی کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کر لیا ہے اور باقی کی ناکہ بندی کم از کم 20 جہازوں کے بیڑے کے ساتھ کر دی ہے، جن میں چار آبدوزیں بھی شامل ہیں۔
یوکرین کی بحیرہ اسود کی بندرگاہیں رومانیہ یا پولینڈ کی بندرگاہوں کے مقابلے اناج کو لوڈ کرنے کے لیے بہتر لیس ہیں۔
ڈبلیو ایف پی کے سربراہ ڈیوڈ بیسلے نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس ناکہ بندی کو توڑنے کے لیے ایک قافلے کو منظم کرے۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹیجک اسٹڈیز کے میری ٹائم دفاعی تجزیہ کار جوناتھن بینتھم کہتے ہیں، ‘روس سے سمجھوتے کے بغیر، عسکری طور پر بہت کچھ ہے جو غلط ہو سکتا ہے۔’
وہ کہتے ہیں کہ ایک قافلے کے لیے اہم فضائی، زمینی اور سمندری طاقت کی ضرورت ہوگی اور یہ سیاسی طور پر پیچیدہ ہوگا۔
‘مثالی طور پر کشیدگی کو کم رکھنے کے لیے، آپ بحیرہ اسود کے کنارے کے ممالک جیسے کہ رومانیہ اور بلغاریہ سے ایسا کرنے کو کہیں گے۔ لیکن شاید ان کے پاس یہ صلاحیت نہیں ہے۔ پھر آپ کو نیٹو کے اراکین کو بحیرہ اسود سے باہر لانے پر غور کرنا پڑے گا۔’
اس سے ترکی، جو کہ بحیرہ اسود تک رسائی کے راستے کو کنٹرول کرتا ہے، مشکل میں پڑ جائے گا۔ وہ پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ جنگی جہازوں کے داخلے پر پابندی لگائے گا۔
روس کی جانب سے پابندیوں میں نرمی کے بدلے خوراک کی ترسیل کے لیے بحیرہ اسود کے ذریعے راہداری کھولنے کی پیشکش اس وقت سامنے آئی جب یورپی یونین بدھ کو پابندیوں کے ایک نئے پیکج پر بات کر رہی تھی اور اس نے راستہ بدلنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔
یہاں تک کہ اگر جنگ کل ختم ہو جاتی ہے تو بحیرہ اسود کو محفوظ بنانے میں مہینوں یا سال لگ سکتے ہیں، مسٹر بینتھم کہتے ہیں، کیونکہ یوکرین نے بارودی سرنگوں اور حکمت عملی سے ڈبوے گئے بحری جہازوں سے اپنی ساحلی پٹی کا دفاع کیا ہے۔
فی الحال، یوکرین سے خوراک صرف زمین پر یا دریائے ڈینیوب کے راستے بارجز پر لائی جا سکتی ہے۔
گزشتہ ہفتے، یورپی یونین نے انفراسٹرکچر میں اربوں یورو کی سرمایہ کاری کر کے مدد کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔
لیکن مسز سٹیٹسیوک کی پڑوسی کیز ہوزینزا کا جو 15,000 ہیکٹر کے مالک ہیں اور کھیتی باڑی کرتے ہیں، کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔
وہ جنگ کے آغاز سے ہی سامان کی نقل و حمل کی کوشش کر رہے تھے اور یورپی یونین کو درکار پیچدہ کاغذی کارروائی سے پریشان ہوئے، جس کی وجہ سے ان کے مطابق سرحد پر 25 کلومیٹر (16 میل) لمبی قطاریں لگ چکی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ صرف کاغذ ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہ اصل میں مکئی کے نمونے لے رہے ہیں۔ آپ کے پاس صرف کاغذ ہونا چاہیے۔’
18 مئی کو، یورپی یونین کے اعلان کے دو دن بعد، کسٹم حکام نے اس کے ڈرائیوروں سے دو فارم طلب کیے جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’سرحد آسان نہیں ہو رہی، اس کے برعکس یہ مزید نوکر شاہی ہوتی جا رہی ہے۔‘
گزشتہ تین ہفتوں میں مسٹر ہوزیزا نے 150 ٹن اناج برآمد کیا ہے۔ اتنی ہی رقم وہ اوڈیسا کی بندرگاہ کے ذریعے چند گھنٹوں میں حاصل کر سکتے تھے۔
’سرحدیں کھول دیں،‘ مسٹر ہوزیزا نے یورپی یونین سے التجا کی، ’بس چیزیں گزرنے دیں۔‘
ملک سے باہر کا اہم راستہ اب ریل ہے۔ لیکن یوکرین کی ریل کی پٹریاں یورپی یونین سے زیادہ چوڑی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ مال کو سرحد پر نئی ویگنوں میں منتقل کرنا پڑتا ہے۔
اوسطاً 16 دن تک انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن اس میں 30 دن تک لگ سکتے ہیں۔
بروکریج، میکسیگرین کی یوکرائنی اناج کی تجزیہ کار ایلینا نیروبا کے مطابق اگرچہ خوراک کی کمی کے بارے میں عالمی بات چیت زیادہ تر گندم کے بارے میں ہے، لیکن اس وقت یوکرین سے نکلنے والا زیادہ تر اناج مکئی ہے۔ اور یہ دو وجوہات کی بناء پر ہے۔
ان کا خیال ہے کہ یوکرائن کے کسان گندم بیچنے میں ہچکچاتے ہیں کیونکہ وہ ہولوڈومور کی یاد سے پریشان ہیں، جو 1932 میں سٹالن کی طرف سے پیدا کیا قحط تھا جس میں لاکھوں یوکرینی ہلاک ہو گئے تھے۔ دوسری طرف مکئی یوکرین میں اتنی زیادہ نہیں کھائی جاتی ہے۔
دوسرا عنصر، وہ کہتی ہیں طلب ہے۔ یورپ زیادہ یوکرائنی گندم نہیں خریدتا، یہ خود کفیل ہے۔ اور اس گندم کو یورپی یونین سے باہر لے جانا مشکل ہے، کیونکہ پولینڈ اور رومانیہ کی بندرگاہیں بڑی مقدار میں اناج برآمد کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
نیروبا کہتی ہیں، ‘جولائی تک، یورپی یونین کے ممالک اپنی گرمیوں کی فصل برآمد کرنے میں مصروف ہو جائیں گے اور ان کے پاس یوکرین کی خوراک کو سنبھالنے کی صلاحیت بھی کم ہو جائے گی۔’
مسئلہ کے حل کے لیے وقت ختم ہو رہا ہے۔ ذخیرہ کرنے کی سہولیات بھری ہوئی ہیں اور موسم گرما میں گندم، جو اور ریپسیڈ کی کٹائی میں ہفتے باقی ہیں۔
Iزپروزاہزیا کے علاقے میں موسم بہار کی بوائی کے دوران ایک کسان فلاک جیکٹ پہنتا ہے۔
سٹیٹسیوک کے پاس اب بھی پچھلے سال کی فصل کا تقریباً 40% اپنے فارم میں محفوظ ہے اور اگلی فصل کے لیے بہت کم جگہ ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ’ہم اسے ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ مغرب کے لیے، افریقہ کے لیے، ایشیا کے لیے کتنا اہم ہے۔یہ ہماری محنت کا پھل ہے اور لوگوں کو اس کی ضرورت ہے۔”
اگر وہ اپنا اسٹاک نہیں بیچ سکتی تو وہ اس موسم خزاں میں پودے لگانے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ وہ امید کرتی ہیں کہ بین الاقوامی برادری یوکرین کے کسانوں کو اناج ذخیرہ کرنے اور دوبارہ پودے لگانے کے لیے مالی اعانت فراہم کر سکتی ہے۔
اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو، وہ کہتی ہیں، اگلے سال اناج کی قلت اور بھی بدتر ہو جائے گی۔
اس وقت گندم کی بہت سی فصلیں خاص طور پر خراب حالت میں ہیں۔ وسطی یورپ، امریکہ، بھارت، پاکستان اور شمالی افریقہ میں خشک موسم کا مطلب ہے کہ پیداوار کم ہے۔ اس کے برعکس یوکرین میں گندم کے لیے موسم اچھا رہا ہے۔
سٹیٹسیوک نے 30 سال پہلے اپنے مرحوم شوہر کے ساتھ اپنا فارم شروع کیا تھا، جب یوکرین یو ایس ایس آر کے ملبے سے ابھر رہا تھا۔ وہ اپنے علاقے میں پہلے شخص تھے جنہوں نے کھیتی باڑی خریدی اور اس عمل میں ایک قابل فخر کاشتکار خاندان بن گیا۔ اس کی دو بیٹیاں اور اس کا بیٹا سب اس کام میں شریک ہیں۔
’ہم یہ کرتے رہنا چاہتے ہیں۔ ہم مدد کرنا چاہتے ہیں، لوگوں کو کھانا فراہم کرنا چاہتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ چند مہینوں میں روس انھیں کم از کم 20 سال پیچھے لے گیا ہے۔