کیا واقعی مچھلی کھا کر دودھ پینے سے برص ہو سکتا ہے؟

برص

اکثر اوقات کھانے کے دسترخوان پر کھانے کے ذائقوں سے متعلق تو بات ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی کچھ ایسے مفروضوں پر بھی بات ہوتی ہے جنھیں حقیقت سمجھا جاتا ہے۔

موسمِ سرما میں جہاں مچھلی کھانے کے رجحان میں تیزی آ جاتی ہے وہیں گھروں میں دسترخوانوں پر اس بحث کی واپسی بھی ہوتی ہے کہ کیا مچھلی کھانے کے بعد دودھ پینے سے وِٹلائيگو یا برص کا عارضہ لاحق ہو سکتا ہے۔

اس عارضے میں جلد پر سفید نشان پڑنے لگتے ہیں اور ایسا جسم کے مختلف حصوں پر ہو سکتا ہے۔

اس حوالے سے سوشل میڈیا صارف عزیر رضوی کی ایک ٹویٹ نے اس جانب توجہ دلوانے میں مدد دی اور اس حوالے سے لوگوں نے اپنے تجربات کا بھی ذکر کیا۔

عزیر نے جب بتایا کہ ان کی والدہ اس وقت خاصی گھبرا گئیں۔ جب انھوں نے مچھلی کھانے کے بعد دودھ پی لیا۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا ایسا صرف پاکستانی اور انڈین ماؤں کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔

اس مفروضے کے بارے میں کچھ افراد نے یہ بھی کہا کہ مچھلی کے اوپر سے دودھ نہ پینے کے بارے میں یہودیوں کا ایک فرقہ بھی خاصی احتیاط برتتا ہے۔

اسی طرح ایک صارف نے لکھا کہ یہ دراصل یونانی طب کا فلسفہ تھا اور کچھ نے ان دونوں اشیا کی تاثیر کے بارے میں بات کی اور کہا کہ شاید ان دونوں کو ساتھ کھانے سے اگر برص نہ بھی ہو تو معدے کے مسائل ہو سکتے ہیں۔

تاہم آج کل مچھلی پکانے کی ایسی ترکیبیں ریستورانوں میں عام ہیں جن میں دودھ استعمال ہوتا ہے۔

’برص کا دودھ یا مچھلی ایک ساتھ کھانے سے کوئی تعلق نہیں‘

اس حوالے سے ہم نے ماہرین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے۔ کہ اس عارضے کا مچھلی کھانے کے بعد دودھ پینے سے کیا تعلق ہے۔

ڈرماٹولوجسٹ (ماہرِ امراضِ جلد) ڈاکٹر ارمیلہ جاوید نے بتایا کہ یہ ایک مفروضہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اس کا دودھ یا مچھلی ایک ساتھ کھانے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس کا کسی کھانے پینے کی چیز سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

ڈاکٹر ارمیلہ کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک آٹوامیون بیماری ہے۔ یعنی آپ کا مدافعتی نظام خود سے ہی میلونن (جلد کو رنگت دینے والے خلیے) کے خلاف اینٹی باڈیز بنانے لگ جاتا ہے۔

’جس کے باعث جس جگہ وہ اینٹی باڈیز حملہ کرتی ہیں وہاں سے میلونن ختم ہو جاتے ہیں جو ہماری جلد پر واضح دکھائی دیتا ہے۔

’طبی اعتبار سے اس کی وجہ یہ ہے۔‘

اس بارے میں بات کرتے ہوئے ماہرِ غذائیت ڈاکٹر زینب کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ہاں یہ مفروضہ ضرور ہے لیکن اس کی سائنسی بنیاد نہیں ہیں۔‘

ڈاکٹر زینب نے کہا کہ ’یہ نہیں ہوتا کہ دونوں چیزوں کے ملاپ سے کچھ ایسا بنتا ہے جس سے جلد پر برص ہو جاتا ہے۔‘

’کھانوں کی تاثیر نہیں مقدار اہم ہے‘

خیال رہے کہ یہ صرف مچھلی اور دودھ ہی نہیں بلکہ متعدد دوسرے کھانوں کے بارے میں بھی مشہور ہے کہ ان کی تاثیر ٹھنڈی یا گرم ہونے کے باعث ان کے مضر ہونے کی بات کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر زینب کا کہنا تھا کہ ’ماہرینِ غذائیت کھانوں کی تاثیر سے زیادہ اس کی مقدار پر غور کرتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ اس بات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی کھانے کی تاثیر گرم ہے۔ یا ٹھنڈی ہے اصل مسئلہ مقدار کا ہے کہ آپ کتنی مقدار میں یہ کھانے کھاتے ہیں۔

اگر آپ کوئی چیز ایک حد سے زیادہ کھاتے ہیں۔ تو اس کا بوجھ ظاہر ہے۔ آپ کے نظامِ انہضام پر پڑ سکتا ہے۔

تاہم یہ ضرور ہے کہ مختلف کھانوں کے باعث لوگوں کو جلد کی الرجیز ہو سکتی ہیں۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ارمیلہ جاوید کا کہنا تھا۔ کہ ’عام طور پر فوڈ الرجیز یا کھانے پینے کی اشیا سے کچھ لوگ الرجک ضرور ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی کھانے کے باعث پہلے سے موجود الرجی بڑھ جاتی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہنا تھا کہ ’جیسے کچھ کیسز میں ڈبوں میں بند مسالوں میں موجود پریزرویٹو، ایڈیٹو یا فوڈ کلر کے باعث الرجی بڑھ سکتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’وہ اس بات سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کہ کسی کھانے کی تاثیر گرم ہے یا ٹھنڈی ہے اصل مسئلہ مقدار کا ہے کہ آپ کتنی مقدار میں یہ کھانے کھاتے ہیں۔

’اگر آپ کوئی چیز ایک حد سے زیادہ کھاتے ہیں تو اس کا بوجھ ظاہر ہے۔ آپ کے نظامِ انہضام پر پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ مرچیں بھی آپ کو الرجی دے سکتی ہیں۔‘

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.