کیا مصنوعی ذہانت پاکستان میں برفانی تیندوے کو معدومیت سے بچا سکتی ہے؟

برفانی تیندوے غرّاتے نہیں ہیں۔ اس لیے جب ہم اس خطرناک شکاری میں سے ایک کی طرف بڑھے تو وہ بلی کی طرح آواز نکال رہی تھی۔

‘لَولی’ نامی اس تیندوے کے بچے. کو 12 سال قبل پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان میں. اس وقت بچایا گيا تھا جب وہ یتیم ہو گیا تھا۔

اسے جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے عملے نے برسوں تک کھانا کھلایا۔ اب یہ مادہ تیندوا یہ نہیں جانتی کہ جنگل میں اسے کیسے شکار کرنا ہے، اس لیے اسے آزاد بھی نہیں کیا جا سکتا۔

لَولی کی نگرانی کرنے والے تہذیب حسین ہمیں بتاتے ہیں. کہ ’اگر ہم اسے آزاد کر دیتے ہیں تو وہ کسی کسان کی بھیڑوں پر حملہ کرے گی اور (نتیجتاً) ہلاک ہو جائے گی۔‘

ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کا کہنا ہے کہ حفاظت کے قوانین کے باوجود ہر سال 221 سے 450 کے درمیان برفانی تیندوے مارے جاتے ہیں اور اس وجہ سے گذشتہ دو دہائیوں میں. ان کی عالمی آبادی میں 20 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

مویشی پر حملہ

ان میں سے نصف سے زیادہ کی اموات مویشیوں کے نقصان کے بدلے میں ہوئی ہیں۔ یعنی اگر کوئی تیندوا کسی مویشی پر حملہ کرتا ہے. تو انسان اس کے بدلے میں اس کا شکار کر لیتے ہیں۔

سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ اب جنگل میں صرف 4,000 سے 6,000 کے درمیان برفانی تیندوے باقی بچے ہیں اور ان میں سے تقریباً 300. پاکستان میں ہیں۔ اس طرح پاکستان. ان برفانی تیندووں کے لیے. دنیا کی تیسری بڑی آبادی ہے۔

برفانی تیندوں کو درپیش پریشان کن رجحانات کو تبدیل کرنے کے لیے ڈبلیو ڈبلیو ایف نے پاکستان کی لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کی مدد سے مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے چلنے والے کیمرے تیار کیے ہیں۔

ان کا مقصد برفانی تیندووں کی موجودگی کا پتہ لگانا. اور ٹیکسٹ میسج کے ذریعے گاؤں والوں کو خبردار کرنا ہے. کہ وہ اپنے مویشیوں کو محفوظ مقام پر لے جائیں۔

تبصرہ کريں

آپکی ای ميل پبلش نہيں نہيں ہوگی.