پولیس کے مطابق کراچی کے سمندر میں دو روز قبل مبینہ طور پر چھلانگ لگانے والی لڑکی کی لاش پیر کو مل گئی ہے جبکہ پولیس کو شبہ ہے کہ واقعہ قتل کا بھی ہوسکتا ہے۔
پولیس کے مطابق جمعے کو مددگار 15 ہیلپ لائن پر اطلاع ملی تھی. کہ ایک لڑکی نے سمندر میں چھلانگ لگا کر خودکشی کی ہے۔ دو دن تک لاش کی تلاش جاری رہی تاہم لاش ملنے کے بعد معلوم ہوا کہ لاش دو روز پرانی نہیں بلکہ چند گھنٹے پرانی ہے جس سے شبہ ظاہر ہوتا ہے کہ لڑکی کو ممکنہ طور پر قتل کیا گیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کے دوران تفتیشی افسر نے بتایا کہ ’ملزم شان سلیم کے خلاف سارہ کے اہل خانہ کی جانب سے جمعہ کے روز اغوا کی ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی۔ یہ بات لڑکی کی لاش ملنے سے پہلے کی تھی، ابھی لڑکی کا پوسٹ مارٹم ہو چکا ہے رپورٹ آنے کے بعد گُتھی سلجھ سکتی ہے۔‘
تفتيش کا آغاز
تفتیشی افسر نے کیس میں ایک حیرت انگیز پہلو کو اجاگر کیا. جس میں عینی شاہد مشکوک ظاہر ہوا۔
تفتیشی افسر زاہدہ پروین کا کہنا تھا: ’عینی شاہد نے پولیس کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ عینی شاہد کے مطابق لڑکی سمندر کے کنارے اکیلے بیٹھ کر رو رہی تھی۔ عینی شاہد کے بیان کے مطابق واقعہ تین روز پرانا ہے جبکہ بظاہر دیکھنے میں لاش تین روز پرانی نہیں لگتی۔ جس کی بنیاد پر عینی شاہد کو تفتیشی عمل شامل کیا گیا ہے۔‘
کیس پر پہلے دن سے نگاہ رکھنے والےصحافی افضل خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’عینی شاہد کے بیان میں تضاد سامنے آیا جبکہ مقتولہ کے چہرے سے بھی ایسا نہیں لگا کہ لاش پانی میں ڈوبی ہوئی تھی جبکہ پولیس سرجن ایم ایل او ڈاکٹر سمعیہ کے مطابق بھی لاش پرانی نہیں لگ رہی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں آخری بار ڈاکٹرسارہ ریسیپشنسٹ ارادھنا کے ساتھ دیکھی گئی، جبکہ بسمہ نامی لڑکی کے ساتھ بھی شان سلیم کے تعلقات تھے دوسری جانب ارادھنا، عینی شاہد جمال شاملِ تفتیش ہیں مگر بسمہ فرار ہے۔‘
دوسری جانب ڈاکٹر شان سلیم کا جسمانی ریمانڈ منظور ہوگیا۔
ملزم گرفتار
ملزم شان سلیم کو آج جوڈیشل مجسٹریٹ مظہر علی کے روبرو پیش کیا گیا۔ پولیس نے ابتدائی رپورٹ عدالت میں پیش کی جس میں تفتیشی افسر نے بتایا: ’مقدمے میں قتل کی دفعہ کا اضافہ کیا گیا ہے، ملزم کے موبائل فون کا فارنزک کیا جارہا ہے تاہم نامزد ملزمہ بسمہ کو فی الوقت گرفتار نہیں کیا ہے۔‘
اس دوران عدالت نے ملزم سے پوچھا کہ آپ بتائیں معاملہ کیا ہے جس پر ڈاکٹر شان سلیم نے بتایا کہ سارہ اُن کےہسپتال میں کام کررہی تھیں اور واقعے کے روز سارہ ہسپتال سے اکیلے نکلی تھیں۔ انہیں جھوٹے مقدمے میں پھنسایا جا رہا ہے۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں صورت حال واضح ہوگی۔‘
اس دوران عدالت نے تفتیشی افسر سے پوچھا کہ پھرآپ کو یہ مقدمہ کیا لگتا ہے تو تفتیشی افسر نے عدالت کو جواب دیا کہ ہسپتال میں دو لڑکیاں کام کرتی تھیں۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق مقتولہ ہسپتال سے غصے میں نکلی تھیں اور ممکنہ طور پر ’حسد‘ بنیادی وجہ ہوسکتی ہے۔
افسر کے مطابق پولیس نے ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔
عدالت نے ملزم شان کو پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا. اور آئندہ سماعت پر پیشرفت رپورٹ بھی طلب کرلی۔
مقتولہ سارہ کون تھیں؟
مقتولہ سارہ کی عمر 23 سال تھی اور وہ کراچی کے علاقے محمود آباد میں اعظم بستی کی رہائشی تھیں۔
ڈفینس میں دوسال سے وہ جانوروں کے ہسپتال میں پہلے استقبالیہ پر اور پھر ایڈمن میں کام کر رہی تھی۔
لڑکی کے والد نے مقدمے میں موقف اختیار کیا تھا. کہ ان کی بیٹی نے ڈاکٹر شان سلیم اور بسمہ کی وجہ سے مبینہ طور پر خودکشی کی۔
انہوں نے کہا: ’میری بیٹی نے چھ جنوری کو پہلے گھر فون کر کے اپنی ماں کو بتایا کہ ڈاکٹر شان سلیم نے اس سے زیادتی کی۔‘
ریسکیو حکام کے مطابق پہلے روز ہی سمندر میں ’ڈوبنے کے مقام‘ سے لڑکی کا پرس ملا تھا. جس میں موجود دستاویزات کے ذریعے اہلِ خانہ سے رابطہ کیا گیا. اور شناختی کارڈ کی مدد سے لڑکی کی شناخت سارہ ملک کے نام سے ہوئی تھی۔